ہندوستان واپس آئے ، تو اپنے تلامذہ کو جو ہندوستان کے بڑے بڑے علماء تھے ، تلقین فرمائی تھی کہ قرآن حکیم کے درس کا سلسلہ قائم کرنا چاھئے ،نیز مسلمانوں کو باہمی اختلافات سے بچانے کی کوشش کرنی چاھئے ، اس کی ضرورت جیسے حضرت شیخ کے زمانے میں تھی ، آج بھی ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ !
بہت سے صاحب ذوق حضرات قرآن کریم کے اردو ترجموں کا مطالعہ کرتے ہیں ، مگر بعض اوقات وہ کسی کسی الجھن میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، کہیں کہیں ناتمام علم کی وجہ سے مطلب سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں ، اور دل میں کوئی غلط مضمون بیٹھا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن میں یہی ہے ، حالانکہ اس کا تعلق قرآن سے نہیں غلط فہمی سے ہوتا ہے ۔ انھیں علماء سے دریافت کرنے کا موقع نہیں ملتا ، یا ایسا عالم دستیاب نہیں ہوتا ، جس سے اپنی الجھن رفع کرسکیں ، معتبر علماء اگر درس قرآن کا سلسلہ رکھیں ، تو ان الجھنوں اور غلطیوں کا سدباب آسان ہوجائے ۔ اﷲتعالیٰ توفیق عطا فرمائیں ۔
٭٭٭٭٭
اعتــــذار
پانچ ماہ کے طویل وقفے میں ماہنامہ ضیاء الاسلام کا خصوصی شمارہ ’’قاضی اطہر نمبر‘‘پیش کرنے کے بعد ہم پھر بدستور سابق ماہانہ شماروں کا ہدیہ لے کر حاضر ہیں ، خدا کرے خصوصی شمارہ پسند خاطر ہوا ہو ، وہ نمبر ہم نے بڑے آزمائشی مرحلوں کے دوران پیش کیا ہے ۔ اس وقت ادارہ ضیاء الاسلام بھی اور مدرسہ شیخ الاسلام بھی مالی اعتبار سے آزمائش وامتحان کی سختیوں میں مبتلا تھا ۔ بعض وقت ناامیدی سی ہونے لگتی تھی کہ قارئین کرام سے کیا گیا وعدہ شاید پورا نہ ہو، مگر کمر ہمت کس لی گئی تھی حق تعالیٰ نے مدد فرمائی ۔ اور ایسے مخلص حضرات کو کھڑا کردیا جن کے تعاون سے یہ مرحلہ بظاہر آسانی سے طے ہوگیا ۔ مگر ادارہ قرضوں سے گراں بار ہوگیا، ارباب انتظام کو فکر ہے کہ حق تعالیٰ نے جس طرح اس کا چھپنا آسان فردیا ، اسی طرح قرضوں سے سبکدوشی بھی آسان فرمادیں ۔ اگر قارئین حضرات جن