دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں :
’’ مکلفین کے ذمہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ علماء اہل سنت والجماعت کی رائے کے موافق اپنے عقائد کی تصحیح کریں ، نجاتِ آخرت کا مدار انھیں حضرات کی رہنمائی وہدایت پر ہے ، یہی حضرات اور ان کے متبعین نجات یافتہ ہیں اور یہی بزرگوار نبی ااور صحابہ کرام کے طریقہ پر ہیں ۔ کتاب وسنت سے جو علوم مستنبط وماخوذ ہیں وہ وہی ہیں جنھیں ان اکابر نے قرآن وسنت سے سمجھا ہے ، کیونکہ تمام اہل باطل اور گم کردگان راہ بھی اپنے فاسد عقائد کو بزعم خویش کتاب وسنت ہی سے اخذ کرتے ہیں ، لیکن( خوب سمجھ لینا چاہئے کہ) اہل سنت کے بتائے ہوئے مفہوم ومعانی کے ماسواکچھ معتبر نہیں ہے ۔
آگے چل کر حضرت خواجہ عبید اﷲ احرار کا ایک قول نقل کرتے ہیں کہ :
’’ اگر ہمیں تمام احوال ومواجید عطا ہوں لیکن اہل سنت والجماعت کے عقائد سے ہمارا باطن آراستہ نہ ہوتو بجز خرابی کے کچھ حاصل نہیں ،اور اگر تمام خرابیاں ہماری جانب منسوب ہوں لیکن اہل سنت کے عقائد کا دامن ہاتھ میں ہوتو کچھ اندیشہ نہیں ۔ (مکتوب : ۱۹۳،دفتر اول )
ان تصریحات سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ عقائد واعمال کی وہی راہ معتبر ہے جو علماء اہلسنت کی متعین کردہ ہے ، قرآن و سنت کا وہی مفہوم ومطلب درست ہے جس کی وضاحت علماء اہل سنت نے کی ہے ، اگر ان حضرات کے خلاف کوئی شخص قرآن و حدیث کا کوئی اور مفہوم امت کے سامنے پیش کرے یادین کی ایسی تصویر بنائے جس سے علماء اہلسنت واقف نہ ہوں ، اس کو بجز گمراہی کے اور کچھ نہ سمجھنا چاہئے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ :
آج کل ایک خاص فرقہ کے افراد اپنے لئے اہل سنت کا لقب خصوصی طور پر استعمال کرتے ہیں ،ناظرین اس سے غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں ، یہ گروہ اہل سنت سے علیٰحدہ