ہے ، ضد اور تشدد کا معاملہ کرتا ہے ، تو پھر اس کے ساتھ نرم رویہ کی ہدایت نہیں ہے، کیونکہ بعض طبیعتیں اس حدتک حق سے منحرف ہوجاتی ہیں کہ ان پر نرم کلام اور نرم معاملہ کا کوئی اثر پڑتا ہی نہیں ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ سختی کا معاملہ کرنا ، بسااوقات ضروری ہوجاتا ہے ۔ ان سے ترک تعلق، ان کی زجر وتوبیخ اور علانیہ ان کی باصرار تردید ،یہ سب سختی کے مظاہر ہیں ۔ ایسا دو وجہ سے کر نا ضروری ہوتا ہے، اول اس لئے کہ شاید اس سختی کے خوف کی وجہ سے وہ راہِ حق کی طرف پلٹ جائیں ۔ دوسرے یہ کہ جو لوگ صحیح راہ پرہیں ، لیکن انھیں علم میں رسوخ نہیں ہے، ان کے بارے میں اندیشہ ہوتا ہے کہ ان بے انصافوں سے کہیں متاثر نہ ہوجائیں ، تو جب ان کے ساتھ سخت لب ولہجہ اختیار کیا جاتا ہے اور ان کی تادیب کی جاتی ہے، تو عوام الناس کو ان کی قباحت وشناعت خوب واضح ہوجاتی ہے، اور وہ ان سے پرہیز کرتے ہیں ، ورنہ اگر ان باطل پسندوں سے خوشامدانہ برتاؤ رکھاگیا تو اسی راہ سے وہ حق پرستوں کے طبقات پر حملہ آور ہوں گے، جو لوگ انسانوں کی نفسیات اور حق وباطل کی معرکہ آرائی پر نگاہ رکھتے ہیں انھیں یہ بات بخوبی معلوم ہے۔
قرآن پاک میں رسول اﷲ ا کو ہدایت کی گئی کہ :یَاأَیُّھَا النَّبِیِّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ(اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے) یہاں اﷲ تعالیٰ نے جہاد اور سختی کا حکم جیسے کفار کے حق میں دیا ہے ، ویسے ہی منافقین کے حق میں بھی دیا ہے، حالانکہ منافقین وہ ہیں جو اپنے متعلق ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں ، اور مسلمانوں کے معاشرہ میں گھلے ملے رہتے ہیں ، لیکن ان کے بارے میں جہاد اورسختی کا حکم دیا گیا ہے، تو اگر آج بھی کوئی فرد یا فرقہ جادۂ حق سے انحراف کرتا ہے اور بے انصافی کی راہ چلتا ہے، اور اس کے اندر نفاق کے خصائل وآثار موجود ہیں ، تو ان سے بحث وگفتگو میں نرم لہجہ کی پابندی ضروری نہیں ، وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْکے حکم سے تو ان پر سختی متعین ہوجاتی ہے۔
رسول اﷲا نے ارشاد فرمایا ہے کہ : أربع من کن فیہ کان منافقاً خالصاً ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، إذا