بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
سیاست کی ساحری
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
موجودہ ہندوستان میں جمہوری تماشا ہے، کبھی یہاں جلالِ پادشاہی تھا ، مگر مزاجِ حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ، حکومت کا ایک مزاج ہے ، جو ملوکیت ہو یا جمہوریت سب میں مشترک ہے، وہ یہ کہ تخت وتاج پر حکمرانی جس کی ہوچکی ہے ، ہزار تدبیریں وہ کرتا ہے کہ اس کی حکمرانی باقی رہے ، اسے کوئی چیلنج نہ کرے، اگر کسی نے یہ ہمت کرلی تو اس ہمت کو توڑنا ضروری ہے ، خواہ اس کے لئے کوئی بھی تدبیر کرنی ہو ۔ حکومت کے منہ میں اگر کوئی مضبوط لگام لگائی جاسکتی ہے ، تو وہ دین وشریعت ہے ، مخلص دیندار شخص حکومت کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو وہ خود بھی قانونِ الٰہی کے ساتھ سر جھکاتا ہے ، اور رعایا کو بھی اسی پر قائم رکھنا چاہتا ہے، وہ اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کی فکر اس لئے کرتا ہے کہ اﷲ کا قانون نافذ ہو، اس کی حکومت خدمت دین واہل دین کے لئے ہوتی ہے ، حکومت مقصد نہیں ہوتی ، اقامت دین کے لئے سب جتن کرنے پڑتے ہیں ، لیکن اگر یہ مقصد نکل جائے ، تو سیاست وحکومت چنگیزی ہوکر رہ جاتی ہے ، خواہ وہ ملوکیت ہو یا جمہوریت، مطلب یہ ہے کہ پھروہ ایک من مانی حکومت ہوتی ہے، اور جس شخص اور جس گھرانے اور جس پارٹی میں وہ ہے ، سیاست کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اسی شخص ، اسی گھرانے اور اسی پارٹی میں رہے ، باہر نہ نکلے ، خواہ اس کے لئے جس ناکردنی کو کردنی بناناپڑے۔
ساٹھ سال سے ہندوستان میں ، ہم جمہوری حکومت کا یہی تماشا دیکھ رہے ہیں ، جہاں کسی نے ابھرنے کی کوشش کی اقتدار نے اسے دبادیا، اگر ان حکمرانوں کا بس چلتا ، تو