مذکورہ بالا رد عمل کا حل :
اس موضوع پر اس خاکسار نے جہاں تک غور کیا ہے ، اپنی نارسائی ذہن وفکر کے باوجود یہ عرض کرسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ ہمارے لئے انہونا اور اجنبی واقعہ نہیں ہے، یہ سب کچھ عین اس کے مطابق ہوا ہے جس کی خبر اجمالاً رسول اﷲ ادے چکے ہیں ،اور رہی یہ بات کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، تو یہ خیال عجلت پسندی اوراﷲ تعالیٰ کی حکمتوں سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ، دعا میں عجلت بازی سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں بکثرت قیامت کی آمد کا اور اس کی علامتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، ان علامات کا حاصل یہ ہے کہ رسول اکرم اکی بعثت مبارکہ قیامت کی آمد کا پہلا اعلان ہے، کیونکہ تکمیل نبوت کے بعد اب کسی اور نبی کاانتظار نہیں ہے ۔ اب دنیا اپنی عمر کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے ، نبوت کے انوار وآثار جب تک باقی ہیں قیامت رکی ہوئی ہے ، جوں جوں دنیا کی عمر کاکارواں آگے بڑھتا جائے گا اور زمانۂ نبوت سے دوری بڑھتی جائے گی ، نور نبوت کے آثار مدھم پڑتے جائیں گے ، نیکیاں سمٹیں گی ، ان کی استعداد کمتر ہوتی جائے گی ، برائیوں کا فروغ وشیوع ہمہ گیر ہوتا رہے گا ، قیامت انھیں برائیوں پر قائم ہوگی ۔حدیث صحیح میں تذکرہ موجود ہے کہ جب تک زمین پر اﷲ اﷲ کہنے والا کوئی موجود ہے قیامت نہ آئے گی ، تو جوں جوں دنیا کی عمر ڈھلتی جائے گی ، برائیوں کا دنیا میں غلبہ ہوتا جائے گا ، اب اس دنیا میں عمومی طور پر خیر وبرکت اور نیکی وسعادت کا وجود مشکل ہے۔
اس دنیا میں اﷲ تعالیٰ کا قانون اور اس کی سنت یہ ہے کہ ہر چیز میں تغیر لازم ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : اَﷲُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفاً وَّ شَیْبَۃً یَخْلُقُ مَایَشَائُ وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ(سورہ روم : ۵۴)
اﷲ ہی ہے جس نے تم کو اس حال میں پیدا کیا کہ تم کمزور تھے ، پھر کمزوری کے بعد طاقت عطا فرمائی ، پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپے کو مسلط کیا ، جو چاہتا ہے وہ پیدا کرتا ہے اور وہی