آج کے ماحول میں دین اور دین کی تعلیم پر پختگی کے ساتھ عمل کرنے والے ، دینی مدارس اور ان کے خالص دینی ماحول ، زمانہ کے احوال اور رنگ وروپ سے الگ اجنبی بن چکے ہیں ، ان کے لئے یہ اجنبیت ہی بجا ہے ، اسی پر وہ بشارت کے مستحق ہورہے ہیں ، یہ اجنبیت ختم کردی جائے اور دنیاداروں کے حلقے میں انھیں کے دستور اور طریقے کے مطابق ضم ہوجائیں تو دین کہاں باقی رہا، اس لئے جن کو مدارس اور ان کی خالص دینی تعلیم ، ان کے اساتذہ ٔ وطلبہ کی ہیئت اجنبی معلوم ہوتی ہے، تو انھیں اجنبی ہی رہنے دیں ، وہ اﷲ اور رسول کو محبوب ہیں ، چاہے دنیا والوں کو ناپسند ہو ں ، ان کو دنیا والوں سے کیا لینا دینا ہے۔
٭٭٭٭٭
غیروں کی نقالی
یہود ونصاریٰ کی نقالی اور ان سے مرعوبیت کا یہ رنگ تو علم کے باب میں ہے ، اس میں مزید اور بھی تفصیلات ہیں ، لیکن اس کے لئے ہمیں عالم اسلام سعودی عرب ، مصر ، شام اور خلیجی ممالک اور ان کے تعلق سے امریکہ ، یورپ اور اسرائیل کے تعلیمی احوال ونظریات کا جائزہ لینا ہوگا ۔ یہ ایک دردناک جائزہ ہوگا، اور بہت تفصیل چاہتا ہے جس کی گنجائش اس مختصر اداریئے میں نہیں ہے ، اس لئے ہم نے صرف ہندوستان کے مدارس اسلامی تک محدود رہ کر گفتگو کی ہے ، علم اور تعلیم میں تو آپ یہود ونصاریٰ کی نقالی ملاحظہ فرماچکے ۔ اب عمل اور کردار کی طرف آئیے ، تو یہاں معاملہ اور بھی بڑھا ہوا ہے ، ہمارے معاشرے کا بڑا حصہ عملاً یہود ونصاریٰ اور مجوس کے رنگ میں رنگین ہوچکا ہے، نہ اسلامی شکل وصورت ، نہ اسلامی وضع قطع، نہ اسلامی کردار وعمل ، ہرعمل کی سند یورپ میں ، امریکہ میں ، چہروں پر داڑھی نہیں ، کیونکہ نصاریٰ داڑھی منڈاتے ہیں ، اسلامی تہذیب میں لباس کی جو وضع ہے کہ چھپائے جانے والا حصہ خوب چھپا رہے اس کی وضع ظاہر نہ ہو ، وہ ختم ، ایسا چست اور اتناچھوٹا لباس کہ ہر عضو کی ساخت نمایاں رہے ، کیونکہ انگریزوں کی تہذیب میں اسی کا چلن ہے، مکانوں کی تعمیر کا وہی