بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
فتنوں کی یورش اور مسلمانوں کے لائحۂ عمل
موجودہ دور میں دُنیا جن حالات سے گذر رہی ہے ، ہمہ دم ایک آفت کا اسے سامنا ہے، دنیا کے کسی گوشہ میں کوئی آگ لگے ، ساری کائنات اس میں سلگنے لگتی ہے۔ ایک عجیب وغریب بے یقینی اور بے چینی کی فضا مسلّط ہے ، ہر طرف خوف ودہشت کا سایہ ہے ، ایک انجانا خوف سب کو بے چین کئے ہوئے ہے۔ ؎
کوئی الجھن نہیں لیکن کسی الجھن میں رہتا ہے
عجب دھڑکا سا ہر دم دل کی ہر دھڑکن میں رہتا ہے
افرادہوں یا حکومتیں ، سب کا یہی حال ہے ، ہر فرد اور ہرادارہ خائف ولرزاں ہے ، اور اسی خوف ودہشت کے ماحول میں وہ الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہے جس سے امن وامان مزید تہ وبالا ہوجاتا ہے ۔ ایک فرد کسی دوسرے فرد سے کسی وہمی خوف میں مبتلا ہوتا ہے ، تو وہ اس خوف کو دور کرنے کے لئے وہ تدبیریں اختیار کرتا ہے جس سے بجائے گھٹنے کے خوف اور بڑھ اور پھیل جائے ، حکومتیں ، حکومتوں سے ڈرتی ہیں ، تو جنگ کا ماحول پیدا کرکے امن عالم کو تباہ کردیتی ہیں ۔
چندسال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ، جو قتل وخون اور گستاخی وبدتمیزی کا ’’ سرخ انقلاب ‘‘ لے کر دنیا کو بے گناہوں کے خون سے لالہ زار بناتی ہوئی اٹھی تھی ، اس کی مضبوط حکومت چند جھٹکوں کے بعد منہدم ہوگئی ، اور اس کے ملبے سے کئی ایسی حکومتیں اٹھ کھڑی ہوئیں جو اسلام کی نام لیوا،اور خدائے واحد کی پرستار ہیں ۔ کفر وشرک کے پرستاروں کی نیندیں حرام ہوگئیں ، حالانکہ ان سے کسی کو واقعی کوئی خطرہ نہیں تھا ، مگر باطل نے