بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
تازیانۂ عبرت
الحمدﷲ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدالمرسلین وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ اجمعین۔
بابری مسجد کی شہادت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک قیامت صغریٰ تھی ، جس کے بعد قتل وخون کا ایک سیلاب اہل اسلام کے سروں سے گزر گیا ۔ اس حادثۂ کبریٰ سے مسلمانوں کے دلوں کو جیسی چوٹ لگی ہے ، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے ۔ اس سے پہلے باوجودیکہ ہندوستان میں سینکڑوں فسادات ہوچکے تھے، اور باوجودیکہ مسلمانوں کے ساتھ نارواامتیازی سلوک ہوتے چلے آرہے تھے ، لیکن بہر حال آزاد ہندوستان میں یہ احساس باقی تھا کہ جیسا شہری ایک ہندو ہے ،ویسا ہی مسلمان بھی ہے ۔ اکثریت اور اقلیت کا فرق تو فطری ہے ، مگر مسلمان اپنے کو بے بس اور دوسروں کے رحم وکرم پر نہیں سمجھتاتھا ، مگر بابری مسجد کیا شہید ہوئی کہ دلوں کی دنیا زیر وزبر ہوگئی ، اس ایک مسجد کی شہادت نے احساسات تک بدل ڈالے ہیں ۔ اب اقلیت واکثریت کا فرق وامتیاز جارحانہ علامتوں کے ساتھ نمایاں ہونے لگا ہے ، ہندوستان کی سرزمین روز بروز فرزندانِ توحید پر بطاہر تنگ ہوتی جارہی ہے ، حسّاس اور باشعور افراد مسلمانوں کے مستقبل کو سوچ سوچ کر ہراساں ہیں ۔ ان حالات میں حکومت کا کیا فرض ہے؟ مسلمان اس سے اپنے حقوق کا مطالبہ کس طرح کریں ؟ ا س سلسلے میں اخبارات کی دنیامیں دھوم مچی ہوئی ہے۔
لیکن یہ بات بار بار دل میں آتی رہی، بہت سے لوگوں کے دلوں میں آتی رہی ، اور بجا طور پر لوگ سوچتے رہے کہ حالات کی اس اُلٹ پلٹ میں ، اور کچھ ہویا نہ ہو ، لیکن اتنا