بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
احتساب میں مجلہ المآثر کا رویہ
قلب و دماغ اور قلم و زبان سب اپنے پروردگار، اپنے خالق و مالک، اپنے محسن و داتا کے سامنے سراپا شکر و سپاس بن کر سجدہ ریز ہیں ، اور ان کی حمد و ثنا کا نغمہ گنگناتے ہیں کہ آج سے دس سال قبل چند ناتوانوں اور ناتجربہ کارافراد نے محدث الھند علامہ جلیل، فقیہ وقت، ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی نور اﷲ مرقدہ کی رحلت کے بعد سوچا، باہم مشورے کئے کہ ایک علمی مجلہ حضرت اقدس کی یادگاری میں جاری کیا جائے، اس میں حضرت کے علوم و معارف کا تعارف کرایا جائے، علم و تحقیق کے وہ خزانے، جو ابھی اہلِ علم کے ہاتھوں میں نہیں پہنچے ہیں ، انھیں پہنچانے کا انتظام کیا جائے، حضرت کے سوانحِ زندگی، نہ جاننے والوں کے لیے علم کی روشنی میں لائے جائیں ، وقفہ وقفہ سے تلاش و تحقیق کی یہ وادی طے کی جائے گی، تو ایک طویل اور دشوار گزر راہ منزل بمنزل لپٹتی رہے گی، علم و معرفت کا نور پھیلتا رہے گا، مآثر و معارف کے خزانے بھرتے رہیں گے، اور گوہر نقاب مستوری کو الٹ الٹ کر نکلتے رہیں گے۔
امید و بیم کی کشمکش کے درمیان یہ مشورہ فیصلہ بنا، اور پہلا سہ ماہی مجلہ ’’المآثر‘‘ کے عنوان سے محرم،صفر،ربیع الاول ۱۴۱۳ھ میں طباعت کے مرحلوں سے گزار کر اہل علم کے ہاتھوں میں پہنچا دیا گیا، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اہلِ علم اور ارباب تحقیق اسے کس نگاہ سے دیکھیں گے، کس طرح اسے جانچیں اور پرکھیں گے؛ مگر یہ سوچ کر قدرے اطمینان ہوتا تھا کہ اس کی نسبت ایک ایسے صاحبِ علم کے ساتھ ہے، جو علم و تحقیق کا ایک سمندر نہیں بلکہ مجمع البحار تھا، جس کے سامنے معاصر اساطین علم کی گردنیں خم رہی ہیں ، اس نسبت کی وجہ سے قبولیت و