حج مبرور ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ حج وعمرہ میں جو اخراجات ہوتے ہیں وہ آدمی کی تنگدستی کو دور کرتے ہیں ۔ رسول اﷲ انے فرمایا ہے کہ حج وعمرہ تنگد ستی اورگناہوں کو اس طرح ختم کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ ( ترمذی شریف،حدیث: ۸۱۰)
صبر وتحمل اور میانہ روی:
حاجی اگر سفر شروع کرنے سے پہلے بطور خاص تین باتوں کا اہتمام کرلے ، تو سفر کی مشقت آسان ہوجائے گی ، اور ایک صاف ستھرا سفر ہوگا۔
اول یہ کہ اس سفر کا عبادت ہونا ، اور عبادت کا ذریعہ ہوناخوب اچھی طرح مستحضر کرلے ، اور ہرہر جگہ اس استحضار کی تجدید کرتا رہے ، اور ابتداء ہی سے دل میں یہ بات بٹھالے کہ جتنی بھی ناگواریاں ، دشواریاں ، اور تکلیفیں پیش آئیں گی ، وہ سب گناہوں کو مٹاتی اور ثواب کو بڑھاتی رہیں گی ، بھوک ہو، پیاس ہو،پروگرام کی بے ترتیبی ہو ، تقدیم وتاخیر ہو ، بدن کی تکان ہو، بے خوابی کا خمار ہو، کسی نے ناگوار بات کہہ دی ہو، غرض جو بات بھی ہو ، وہ محض تکلیف نہیں ہے ، بلکہ اس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ خطائیں معاف کریں گے ، آخرت کا درجہ بلند کریں گے ، یہ سب ناگواریاں عبادت میں شامل ہوں گی، یہ عبادت اختیاری نہیں غیر اختیاری ہوگی، اور اس کا درجہ بہت بلند ہوگا۔
دوسرے یہ کہ گھر سے نکلنے کے وقت غصہ اور بے صبری کو اپنے پاس سے رخصت کردے ، غصہ اور بے صبری ایک دوسرے کو لازم ہیں ۔ ایک چلا جائے گا تو دوسرا بھی رخصت ہوجائے گا ۔ طے کرلے کہ خواہ کتنی ہی خلاف طبیعت اور خلاف مزاج بات ہوگی غصہ نہیں کرنا ہے ، سفر ہے اور وہ بھی بہت ہجوم کا ، اس میں اپنے مزاج کے خلاف ہونا ناگزیر ہے ، بس غصہ کی آگ سے اپنے آپ کو بچائے ، جدال ، جس کی حق تعالیٰ نے نفی فرمائی ہے ، اس کی بنیاد بھی غصہ ہی ہے، اس کو حاجی اپنے سے جدا ہی رکھے ،یہ نہ ہوگا تو صبر خود بخود ہوگا، صبر کاحاصل یہ ہے کہ ہمیں جو کام کرنا ہے، اس میں لگے رہیں گے، ناگواریوں کے ساتھ الجھنا