جس راستے پر امت کا سوادِاعظم جارہا ہے اسی راہ پر لگے رہیں ، اس سے ذرا اِدھر اُدھر ہوئے کہ شیطان کا لقمہ بن جائیں گے ۔
انفرادیت پسندی:
بعض لوگ اپنی امتیازی شان اور انفرادی حیثیت منوانا چاہتے ہیں ، انھیں یہ خبط ہوتا ہے کہ سب لوگ جس راہ پر چل رہے ہیں اگر وہ بھی اسی راہ پر بھیڑ میں چلے تو انھیں کون پہچانے گا ، ان کی انفرادیت پسندی انھیں عام راستے سے الگ لے جاتی ہے ، بہت سے مسائل میں وہ تفرد اختیار کرتے ہیں ، امت میں جو رائے کسی نے پیش نہیں کی ہے اس پر اصرار کرتے ہیں ، تجددکے شوق میں اصطلاحات کے مفہوم تبدیل کرڈالتے ہیں ، قرآن وحدیث میں جدید معانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور جب عام اہل علم سے اس کی تائید نہیں پاتے تو بجائے اس کے کہ اپنی غلطی محسوس کریں انھیں کو کوتاہ بیں بد فہم اور غبی کہنے لگ جاتے ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ عام علماء پر سے اعتماد اٹھ جائے ۔ یہ لوگ ’’ شاذہ ‘‘ کے مثل ہیں ، ہمارے زمانہ میں اکثر تیز ذہن افراد جو فتنے لے کر اٹھے اور اہل سنت سے الگ انھوں نے راہ بنائی ، ان میں سے بیشتر کے پیچھے یہی انفرادیت پسندی اور شوقِ تجدد کارفرما رہا ہے۔ ہندوپاک میں پائے جانے والے نومولود فرقوں سے جو لوگ آگاہ ہیں ان کے لئے شناخت مشکل نہیں ہے۔
غلو پسندی: بعض لوگوں کو انفرادیت اور تجدد کا شوق نہیں ہوتا ،لیکن وہ کسی خاص مسئلہ پر اتنا زور دینے لگ جاتے ہیں اور اس درجہ اصرار کرتے ہیں کہ ان کی اہمیت اصل حیثیت سے آگے بڑھ جاتی ہے ۔ دین کے مختلف شعبے اور اجزاء ہیں اور ہر ایک کی حیثیت متعین ہے ، اپنی حیثیت سے کسی مسئلہ کو نکالنا در حقیقت پورے دین کا حلیہ بگاڑنا ہے ، انسانی جسم میں ہر عضو کی ایک حیثیت اور مقدار متعین ہے ، اگر کسی عضو کی مقدار عام مقدار سے بڑھ جائے تو پورا جسم بد صورت ہوکر رہ جاتا ہے ، ٹھیک یہی حال دین کے مختلف شعبوں اور اجزاء کا ہے ، بعض گروہوں نے تو سیاست وحکومت کو اس درجہ اہمیت دی کہ دین کا ہر شعبہ اس کا خادم محسوس ہونے لگا ، بعض لوگ کسی مستحب یا مباح امر پراس درجہ اصرار کرنے لگتے