بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
عالم کی لغزش
جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور ، ضلع اعظم گڈھ کے مشرقی خطے کا ایک مرکزی اور معتبر ادارہ ہے، اس خاکسار نے اپنی ابتدائی عربی تعلیم کے چار سال اس میں گزارے ہیں ، شعور کی ابتداء سے اس کی محبت اور اس کی عقیدت رگ وریشے میں رچی بسی ہے، اس وقت اس کے سربراہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب نور اﷲ مرقدہٗ تھے، مولانا عبدالباری صاحب صرف ا س مدرسے کے ہی سربراہ نہ تھے۔ بلکہ مبارکپور اور اس کے اطراف کے مسلمانوں کے مسلّم سربراہ تھے۔ کوئی دینی وسماجی کام خواہ انفرادی ہو، یا اجتماعی، ان کے بغیر انجام نہیں پاتا تھا، آجکل اس ادارے کے سربراہ میرے رفیق درس جناب مولانا عبد المعید صاحب قاسمی ہیں ، جامعہ عربیہ احیاء العلوم کی قدیم روایت رہی ہے کہ ہر سال اس کے وسیع صحن میں ایک بڑا دینی جلسہ ہوتا ہے، اس میں ملک کے مشہور اور معتبر علماء شرکت فرماتے ہیں ، ان کے مواعظ سے مبارکپور اور اس کے اطراف کے لوگ مستفید ہوتے ہیں ، اسی دستور کے مطابق اس سال بھی ۶؍ ۷؍ صفر کو وہ روایتی جلسہ منعقد ہوا، دوسرے روز کے جلسے میں ایک مشہور خطیب مولانا سید سلمان ندوی کی تقریر ہوئی، ندوی صاحب خطیب تو واقعی نمونے کے ہیں ، اندازِ بیان بہت خوب ہے، قرآن کریم کی آیات اس طرح پڑھتے ہیں کہ طبیعت وجد میں آ جائے، ان کی تقریر نہایت مرصع، اور فصاحت وبلاغت کا ایک دلآویز مرقع ہوتی ہے، کہ سننے والے جھوم جھوم جائیں ۔
لیکن کاش وہ کچھ مطالعہ کرکے تقریر کرتے، صرف زور بیان سے کام نہ لیتے، بلکہ علمائے حق کی ترجمانی کرتے، قرآن کریم کی تفسیر میں اپنی رائے کو نہ داخل کرتے، لیکن واقعہ