بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
فکراور سوچ کی دوراہیں :
فکر دنیاوی اور فکر ایمانی
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم ،أمابعد!
ہماری یہ دنیا، جس میں ایک عارضی زندگی دنیا والوں کو بخشی گئی ہے، اور عمل کی ایک عارضی مہلت انھیں ملی ہوئی ہے، اس میں ان کے ساتھ ایسی ضروری بات اور ایسی مجبوریاں لگا دی گئی ہیں کہ انھیں سعی وعمل سے چارہ نہیں ، شعوری اور غیر شعوری طور پر ہمہ دم انھیں کد وکاوش کی الجھنیں گردش میں رکھتی ہیں ، پیدائش سے موت تک حرکت ہی حرکت ہے، عمل ہی عمل ہے، عمل اور رد عمل کا ایک سلسلہ ہے، جو مسلسل سامنے آتا رہتا ہے، دنیا کی زندگی کا نطام اسی بنیاد پر قائم ہے، تو کیا صرف یہی نظام ہے، جو ہماری نگاہوں میں آتا رہتا ہے، ہماری عقل اس کا ادراک کرتی رہتی ہے، اس کی گتھیاں کبھی سلجھتی ہیں ، کبھی الجھتی ہیں ۔ کبھی آدمی خوش ہوتا ہے کبھی رنج وتکلیف کے دریا میں ڈوبنے لگتا ہے؟ کیا یہ سب اسی نظام عالم کا کرشمہ ہے؟
اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے، جسے مادی دنیا دیتی ہے، یہ جواب مادہ پرستوں کے دماغ میں آتا ہے، جن کے نزدیک کائنات از اول تا آخر یہی سامنے کی کائنات ہے، جن کو نہ خدا سے مطلب ہے، نہ عقیدہ آخرت سے اور نہ غیبی حقائق سے! لیکن یہ جواب بہت ناقص، ناقابل تسلی، اور غیر اطمینان بخش ہے، اس جواب سے فطرت انسانی کو اطمینان تو کیا ہوتا، بے شمار سوالات اور سر ابھارنے لگتے ہیں ۔