غریب اپنی کمائی کا مال دیتا ہے ، اور اس طرح دیتا ہے کہ اس کے سب سے قریبی فرد کو بھی احساس نہیں ہوتا ہے کہ اس نے کسی کو کچھ دیا ہے، آخر بایاں ہاتھ داہنے ہاتھ کے کتنے قریب ہے ، مگر اسے بھی پتہ نہیں ہوتا کہ داہنے ہاتھ نے کیا عمل کیا ۔ مال کو اپنے پاس سے ہٹانا یہ دلیل ہے کہ مال کی محبت نے اس کے دل کو نہیں پکڑا ہے ، اور اس خاموشی سے دیتا ہے کہ کسی کوخبر تک نہیں ہوتی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شہرت ونیک نامی کی محبت سے بھی خالی ہے۔
اس کا یہ جذبہ اور عمل اتنا بڑا ہے کہ وہ سیدھا عرش الٰہی کے سایہ میں جاپہونچتا ہے، اور خدا کا انتہائی قریبی ہوجاتا ہے ، وفی ذٰلک فلیتنافس المتنافسون، مقابلے میں سبقت کرنے والے آئیں ، اور اس میں مسابقہ کریں ۔
(۷) ورجل ذکر اﷲ خالیاً ففاضت عیناہ
اوپرجو کچھ بیان کیا گیا، اس کی روح یہ ہے کہ ایک مرد مومن کا دل اﷲ کی محبت اور جذبۂ اطاعت سے معمور ہے، دنیا کے کے ہزار تقاضے ہوں ، نفس چاہے جتنا زور لگارہا ہو، شیطان خواہ کتنی ہی سازشیں کررہا ہو، دنیا والے چاہے جتنا دباؤ ڈال رہے ہوں ، مگر اﷲ کے حضور اس کا جذبۂ محبت وفرمانبرداری سب کو شکست دے کر سرخروئی کاسامان فراہم کرتا ہے ، وہ دنیا میں بھی سرخ رو ہوتا ہے، اور آخرت میں بھی سب سے عزت اور راحت کے مقام تک پہونچتا ہے، دل کی یہ محبت اتنی طاقتور ہے کہ اس کے سامنے تمام تقاضے ماند اور تمام محبتیں بجھ کر رہ گئیں ، اب اس کے سامنے کوئی بھی اس کی نظر کو گرفتار کرنے والا نہیں رہا ؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اس جذبۂ محبت واطاعت کے آجانے کے بعد دل اس میں ڈوب گیا، اب وہ اکیلا بیٹھا ہے ، ساری دنیا میں یکسو ہوگیاہے ، اس کے پاس کوئی نہیں ، لیکن محبت الٰہی کی شورش اٹھتی ہے اور آنکھوں سے پانی بن کر بہنے لگتی ہے ، وہ آنسو بڑا قیمتی ہے ، جسے محبت نے دل سے اچھالا، اور آنکھ کی راہ سے بہہ پڑا، لیکن اسے بجز پروردگار کے کسی اور نے نہیں دیکھا ، وہ یہ آنسو ہے جس سے جہنم کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے ، یہ گویا پچھلے تما م کی روح ہے۔