بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
عقل مند کون؟
روز وشب کی گردش جاری ہے،سورج طلوع ہوتا ہے پھر غروب ہوتا ہے، لوگوں کی زندگی سے ہرروز ایک دن کم ہوجاتا ہے، ہر پیدا ہونے والا،مسلسل زندگی سے موت کی طرف رواں دواں ہے، وہ نہیں جانتا کہ وہ منزل جس کا نام موت ہے کب آئے گی، لیکن یہ یقین ہے ، ایسا یقین جس میں شبہ کا کوئی کانٹا کبھی نہیں چبھتا کہ وہ منزل آئے گی، وہ قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے ۔روز وشب اور ماہ وسال کی گردش آدمی پر مسلسل اثر انداز ہورہی ہے ، کل کا بچہ آج جوان ہے، آج کا جوان کل کو بوڑھا ہوجائے گا، ایسا بوڑھا کہ شکل نہ پہچانی جائے گی، یہ سلسلہ کل بھی تھا ، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ ہر آدمی اس الٹ پھیر میں تہ وبالا ہورہا ہے ، پیدا ہواتو گمنام بلکہ بے نام تھا، روز وشب کے سفر نے اسے آگے بڑھایاتو نامی گرامی بادشاہ بنا ، علم وفضل میں مشہور ہوا، طاقت وقوت میں اس نے شہرت پائی، زمانہ میں اس کا آوازہ گونجا، لیکن ایک دن سورج طلوع ہواتو وہ خاک کا ڈھیر تھا ، شہرت فسانۂ ماضی بن گئی ، طاقت قصہ پارینہ بن گئی ، تخت شاہی مٹی میں مل گیا، علم وفضل کی صرف یاد باقی رہ گئی ۔
یہ گردش کیا ہے؟ یہ سفر کیسا ہے ؟ کہ راستہ بھرا پُرا ہے، قافلہ مسافروں سے معمور ہے ، مگر ہر روز کچھ مسافر اس قافلہ سے جدا ہورہے ہیں اور کچھ نئے شامل ہورہے ہیں ، یہ کیا ہے ؟ محض ایک سلسلہ ہے کہ لوگ اس میں جڑتے رہیں اور ٹوٹتے رہیں ، یا اس میں کوئی حکمت ہے؟ اس کا کوئی کوشگوار یا ناگوار انجام ہے؟ اس میں کوئی خاص عبرت ہے ؟ یہ سوال بہر حال پیدا ہوتا ہے ، کچھ لوگ اسے اپنے زورِ عقل سے اسے حل کرنا چاہتے ہیں ، لیکن جس عقل کا حال یہ ہے کہ اس کے علم کی روشنی نہ ماضی کو اجالا کرسکتی ہے اور نہ مستقبل میں کچھ