تمہید نگارنے یہ نہیں بتایا کہ اور جگہوں سے کیا کیا فتوے آئے ، یہ بتائے بغیر وہ لکھتا ہے کہ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر باربار فتویٰ کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ، کسی حتمی فتویٰ پر اکتفاء کیوں نہیں کیا جاتا ۔
اس تمہید نگار سے کوئی پوچھے کہ آخر یہ حتمی فتویٰ ہی تو ہے جو بار بار دیا گیا ،اور مختلف جگہوں سے بار بار سوال کئے جائیں گے ، تو بار بار جواب بھی دیا ہی جائے گا ۔
تمہید نگار کہتا ہے :
اس سے کنفیوژن پیدا نہیں ہوگا ، آخر اختلاف کی راہیں کیوں کھل رہی ہیں ؟
فتویٰ تو ایک ہی ہے ۔ اس سے اختلاف کی را ہ نہیں کھل رہی ہے ، البتہ اخبار نے اس میں کنفیوژن پیدا کرنے کوشش کی ہے ، اور مختلف الخیال اور مختلف العمل لوگوں سے مضمون لکھوا کر اختلاف کی راہ کھول رہا ہے ، اور واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل جب ہر قسم کی گپ شائع کرنے والے اخباروں میں چھیڑے جاتے ہیں ،تو اختلاف کی راہ وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ علماء کے فتاوے اس اختلاف کے ذمہ دار نہیں ، اخبارات کے بازاری صفحات اختلاف پیدا کرتے ہیں ۔
اب وہ فتویٰ سنئے ، جس پر اخبار نے کئی گرم مضامین شائع کئے ہیں اور یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ علماء کے درمیان اس موضوع پر اختلاف ہے، کوئی شبہ نہیں ہے کہ جن لوگوں نے اس فتوے سے اختلاف کیا ہے ، ان میں سے بعض حضرات علماء میں شمار کئے جاتے ہیں ، لیکن ان کے مضامین پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ ان حضرات نے پڑھا لکھا سب بھلا دیا ، یا بالقصد انحراف کیا ۔ ان مضامین کی وجہ سے وہ اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان مضامین کو پڑھنے سے قرآن پاک کی ایک آیت ذہن پر روشن ہوئی ، جو حق تعالیٰ نے منافقین کی بے وفائی کے متعلق ایک خاص موقع پر نازل فرمائی ہے :
ھُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ أقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِیْمَانِ (سورہ آل عمران : ۱۶۷)
اس دن وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کے زیادہ قریب تر تھے ۔
میں نہیں کہتا کہ ان حضرات کے حال پر یہ آیت منطبق ہورہی ہے ، مگر یہ ضرور ہے کہ علماء حقانی کی صف سے یہ حضرات خود کو باہر کرنے کے درپے معلوم ہوتے ہیں ۔
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ ملاحظہ ہو
’’اصل یہ ہے کہ ٹی ۔ وی اصالۃً آلۂ لہوولعب ہے ۔ دینی پروگرام چلانے کیلئے اس کا استعمال کرنا انتہائی قبیح ہے ، اشاعت اسلام اور حفاظت اسلام کے جو طرق بے غبار اسلام میں