اﷲ ا کے عہد مبارک ہی میں مرتب ومکمل ہوچکے ہیں ،اور ان پر عمل درآمدبھی ہوچکا ہے ، کیا عقیدہ ہونا چاہئے ؟ کیا فرض ہے ؟ کیا واجب ہے ؟ کیا سنت ہے ؟ کیا مستحب ومباح ہے ؟ اور کیا چیزیں حرام وناجائز ہیں ؟ اصولی طور پر یہ تمام اُمور خیر القرون ( عہد رسالت وصحابہ) میں طے ہوچکے ہیں اور اہل اسلام کی راہ متعین ہوچکی ہے ، اسی راہ پر چلنے کا ہر مسلمان ذمہ دار ہے، اس راہ کو اختیار کرنے والی جماعت اور افراد ’’اہلسنت والجماعت ‘‘ کہلاتے ہیں ۔ اہل سنت کے تمام عقائد واعمال وہی ہیں جو آنحضرت ا اور صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین سے ثابت ہیں ، اس راہ سے انحراف کرنا اور باہر نکلنا بالکل درست نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَہُ الْھَدیٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَسَبِیْلِ الْمُوْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَائَ تْ مَصِیْراً۔( سورۃ النساء : ۱۱۵)
اور جوکوئی مخالفت کرے رسول کی جبکہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کردیں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو جہنم میں اور وہ بہت بری جگہ پہونچا۔
اس آیت کو بنظر غور دیکھئے ، رسول کی مخالفت کرنے والا تو خیر جہنم میں جائے گا ہی ، اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں سے الگ راستہ اختیار کرنے والا بھی اسی انجام میں گرفتار ہوگا ، اس لئے بہت اہتمام سے اہل سنت والجماعت کے عقائد کو دریافت کرکے انھیں پختگی اورا ستقامت کے ساتھ تھامے رہنا چاہئے ، خالص حق وہی ہے جسے آنحضرت انے ماأنا علیہ وأصحابی کی بلیغ تعبیر میں واضح فرمایا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طریقہ پر آپ اور آپ کے اصحاب رہے ہیں وہی حق اور پسندیدۂ خداوندی ہے۔
سوادِ اعظم: رسول اﷲ اکاارشاد ہے : إتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار ( ابن ماجہ ) سوادِ اعظم کی راہ چلو ، جو اس سے علیٰحدہ ہوا وہ جہنم میں گیا ۔
سوادِ اعظم امت کا وہ باعظمت اور جلیل القدر طبقہ ہے جو صحابۂ کرام، ائمہ مجتہدین ، محدثین وفقہاء اور اہل حق مشائخ وصوفیہ کی عظیم جماعت پر مشتمل ہے ، جس کی اصولِ دین