بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
احتساب سے گرانی
مجلہ ’’ المآثر‘‘کا جب آغاز ہوا تھا ، تو اس میں کتابوں کے تعارف وتبصرہ کا کوئی باب نہ تھا، اور ارادہ یہی تھا کہ اس عنوان سے یہ مجلہ خالی رہے گا، اس وقت مصلحت پیش نظر تھی کہ کتابوں کے تعارف وتبصرے کے لئے ضروری ہے کہ زیر تبصرہ کتاب یا رسالہ کا بالاستیعاب مطالعہ کیاجائے ، اس پر اپنی رائے قائم کی جائے، اور پھر اس کے کھرے اور کھوٹے کو واضح کیا جائے ، اور یہاں مدیر کایہ حال ہے کہ وہ ایک مدرسہ کا مدرس ہے ، تدریس کی مشغولیت تحریر سے کس قدر مانع ہے ، وہ اہل تجربہ پر مخفی نہیں ہے ، ایسی حالت میں ہر کتاب پڑھنا اور پھر اس پر تبصرہ کرنا ایک مشکل امر تھا ، اس لئے خیال ہوا تھا کہ یہ باب سرے سے منعقد ہی نہ ہوتو بہتر ہے ، ایک عرصہ تک اس پر عمل رہا، لیکن بعض حضرات ، مجلات وجرائد کے عام دستور کو پیش نظر رکھ کر کتابیں بھیج دیا کرتے تھے ، ان سے معذرت کرنی پڑتی تھی ، پھر ایسا بھی ہوا کہ بعض اہم کتابوں پر تبصرے شائع بھی ہوئے ، اس نظیر کے سامنے آجانے کے بعد معذرت مشکل ہوگئی، لیکن ہمارے لئے یہ ایک دشوار کام ہوگیا، کیونکہ اس کے لئے ہر کتاب پڑھنی ضروری ہے، اور اس کا موقع ملتا نہیں ۔ اس لئے تبصرے میں تاخیر ہونے لگی، اوراصحاب تصنیف کو شکایتیں ہونے لگیں ، اسی خیال سے زیر نظر شمارہ میں اعلان تحریر کردیا گیا کہ اب یہ باب پھر بند کیا جاتا ہے، یہ اعلان اس وقت لکھا گیا تھا جبکہ ابھی پچھلا شمارہ چھپ کر نہیں آیا تھا ، اس کے کچھ دنوں کے بعد پچھلا شمارہ چھپ کر آیا، اس میں ایک کتاب پر تبصرہ مدیر کے قلم سے آیا ہے۔ یہ تبصرہ مدیر نے اپنی دانست میں دیانت داری کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر لکھا ہے، لیکن مصنف کی منشاء اور ان کی غرض کے خلاف ہے ، تبصرہ نگار