اور پھر چند ہی دنوں میں یہ کیا ہوا کہ امریکہ کے قاصد مدارس میں اور علماء کے پاس دوڑتے پھر رہے ہیں ، انھیں دعوتیں دے رہے ہیں ، امریکہ آنے کے لئے اصرار کررہے ہیں ، اور وہی علماء جو امریکہ سے اظہارِ نفرت کررہے تھے ، اب اس سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ، ایسا بھی نہیں ہے کہ امریکہ کا ظلم ختم ہوگیا ہو ، یا اسے پچھلے کرتوتوں پر ندامت ہوئی ہو ، یا اس نے اسرائیل کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا ہو ، یا افغانیوں اور عراقیوں پر اس نے کچھ مہر بانی فرما دی ہو ، یا مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ کہنا بند کردیا ہو ، یا علماء وطلباء کو معصوم قرار دے دیا ہو ، ایسا کچھ نہیں ، وہ اپنی سابقہ روش پر حسب دستور ہے ، پھر اچانک یہ کیا ہواپلٹی ! موسم کیونکر بدلا ۔ اس کو اتنی گنجائش کیسے مل گئی کہ اس کے فرستادے ، اس کے قاصد علماء کے بیچ مدارس کے صحن ودفتر میں کھڑے بیٹھے نظر آرہے ہیں ، ان سے باتیں کی جارہی ہیں ، ان کا پیغام سنا جارہا ہے ، بعض انکار کررہے ہیں ، بعض ان کا پیغام قبول کرنے اور امریکہ جانے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔
یا للعجب !یا ویلا ہ ! واأسفاہ !
ایک مرکزی درسگاہ میں امریکی سفیر پہونچا ، اپنی دعوت پیش کی ، درسگاہ کے ذمہ داروں نے دعوت نہیں قبول کی ، کرنے والوں نے ان پر اعتراض کیا ، کہ امریکی سفیر وہاں کیوں پہونچا ؟ ذمہ داروں نے جواب دیا کہ ہمارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہوا ہے ، آنے کو ہم روک نہیں سکتے ، یہ جواب دے کر وہ مطمئن ہوگئے کہ اعتراض ختم ہوگیا ، حالانکہ ایسا ہوا نہیں ، آپ کا دروازہ ان دشمنوں کے لئے کیوں کھلا ہوا ہے ، جو آپ کے دین کو ، آپ کی پوری ملت کو تباہ کئے جارہے ہیں ۔ آپ کے اندر ان کے مقابلے کی طاقت نہیں ہے ، تو کم سے کم اظہارِ نفرت کرتے ہوئے ان کے لئے اپنا دروازہ تو بند کرسکتے ہیں ، آپ کی غیرت کو کیا ہوا ، کہ ایسا خونخوار دشمن جس کے ہاتھ آپ ہی کی ملت کے خون سے رنگین ہیں آپ کے گھر آئے ، اور دروازہ کھول کر آپ اس کا استقبال کریں اور اس کے اسی خونیں اور نجس ہاتھوں سے آپ مصافحہ کریں ۔