بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
نمازوں کا اہتمام اور باہمی اتحاد کی اہمیت
مسلمانوں کی ایک تاریخ ہے ، جسے ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں ، جس کے آثار وعلائم یادگاروں اور تاریخی عمارتوں میں کبھی کبھی دیکھتے ہیں ، لیکن ہماری نسل جس نے بیسویں صدی کے نصف کے بعد آنکھیں کھولی ہیں ، اس نے وہ دور نہیں دیکھا ہے، نہ اس دور کے احوال دیکھے ہیں ، جب مسلمان غالب نہ تھے تو مغلوب بھی نہ تھے ۔ مغل حکومت ، مسلمانوں کے دور کا ایک تاریخی زمانہ ہے ، اس وقت غیر مسلموں کی اکثریت کے باوجود ہندوستان ایک اسلامی ملک تھا ، دار الاسلام تھا ، اسلام کا غلبہ تھا ، مسلمانوں کا دبدبہ تھا ۔ علم ،عمل ، سیاست ہر اعتبار سے ہندوستانی معاشرہ مسلمانوں کا دست نگر تھا ۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا ، ایک بدیسی قوم سمندر پار ، دور سے یہاں تاجر بن کر آئی ، قسمت نے یاوری کی ، مسلمانوں کا ستارہ گردش میں آیا، اس نے مسلمانوں کو دبالیا ، حکومت کے مراکز پر اس کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ تقریباً دوسوسال کے عرصہ تک اس تاجر قوم نے اس ملک کو اپنی تجارت اور سوداگری کا میدان بنائے رکھا، اس دور میں ملت مسلمہ گوکہ شکست خوردہ ہوچکی تھی ، مگر پھر بھی ملک کی دوسری غیر مسلم اقوام کے مقابلے میں سر بلندتھی ، ملک کے بہت سے حصوں میں اس کی اکثریت تھی ، اور جہاں عددی اعتبار سے اکثریت میں نہ تھی وہاں بھی قوت وشوکت کے لحاظ سے، اور علم واقتصاد کے لحاظ سے غالب نہ سہی مساوی ضرور تھی، مگر جب انگریز یہاں سے رخصت ہونے پر مجبور ہوا، تو اس کی عیارانہ عقل وذہانت نے ایک نیا گل کھلایا، کہ ہندوستان کی دو بڑی اکثریت کو باہم ٹکرادیا، اور دونوں کو یہ سبق پڑھایا کہ تم دونوں یعنی ہندو اور مسلمان باہم مل کر نہیں رہ سکتے ، ہر ایک دوسرے کا دشمن ہوگا ، لہٰذا تم دونوں کو ملک کے الگ الگ خطے دئے