علیہ السلام نے اپنی ساری طاقت اور تمامتر صلاحیت صرف کی تھی ، کیاان کی محبت ، ان کی دلسوزی ، ان کی راتوں کی آہ وزاری کا تم یہی حق ادا کررہے ہو۔
بچو!بچو! پلٹو! اور اس راہ پر دوڑو ، جو اﷲ کی رضامندی، مغفرت اور جنت کی طرف جارہی ہے۔
نوجوانانِ ملت!تم نے اپنے سب سے بڑے ہمدرد ومخلص اور انسانیت کے سچے بہی خواہ کی سچی بات جو ہر شبہ سے بالاتر ہے سنی، اور سب سے بڑھ کر بہی خواہی اور ہمدردی سے بھرا ہوا کلام پڑھا۔ کیا یہ کلام تمہارے دلوں پر دستک نہیں دے رہا ہے ، انسانیت کے یہ نجات دہندہ بزرگ تمہیں کس مقام ومرتبہ پر دیکھنا چاہتے ہیں ، اس پر اچھی طرح غور کرو، وہ تمہیں عرشِ الٰہی کی پناہ میں دیکھنا چاہتے ہیں ، اس دن جبکہ ہر پناہ فنا ہوچکی ہوگی ، اور وہی ایک پناہ باقی ہوگی ، اور جہاں وہ خود بھی تشریف فرما ہوں گے ، وہ پناہ تمہیں کیونکر حاصل ہوگی ، اس کی تدبیر یں بتارہے ہیں ، اورتم پڑھ چکے ہو کہ وہ سات تدبیریں ہیں ، اب یہ تمہارے حوصلہ کی بات ہے کہ ان تدبیروں میں سے کوئی ایک تم اپنی حوصلہ مند طبیعت میں داخل کرو ،یا یہ کوشش کرو کہ وہ ساری تدابیر تمہارے دائرۂ اعمال میں آجائیں تاکہ تمہیں عرش کے ہر چہار جانب سے صدا دی جائے کہ اے خوش نصیب! ادھر آؤ! تمہارا مقام یہ ہے ، پس ضروری ہے کہ تمہاری جوانی شہواتِ فاسدہ سے پاک ہو، بدکرداری نے اسے گندہ نہ کیا ہو، تمہارا قلب ودماغ اطاعت الٰہی اور عبادت خداوندی کی فکر میں نکھر رہا ہو، تمہاری اٹھان محبت وعبادت الٰہی میں ہورہی ہو۔
(۱) الامام العادل
اگرتمہیں کسی قوم کی ، کسی ملک کی ، کسی خطۂ زمین کی سربراہی مل گئی ، تم صاحب اختیار ہو ، صاحب اقتدارہو،تو تمہارا دماغ اس کے نشہ میں سرمست وسرشار نہ ہو، ظلم وطغیان تمہارے دامن اقتدار کو آلودہ نہ کرے ، بلکہ ہر ایک کے ساتھ انصاف تمہارا شعار ہو ، اور انصاف کیا ہے ؟ اپنے نفس اور خواہش کو دباکر احکام خداوندی کی بغیر کسی جانبداری کے تعمیل! وہ اپنا ہو یا غیر، دولت مند ہو یا فقیر، جہاں جو حکم الٰہی ہو اس کا ٹھیک ٹھیک نفاذ ! نہ کوئی