بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
سفرِحج کے برکات اور اس کے تقاضے
زائرینِ حرم کے قافلے لوٹ لوٹ کر اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں ، بڑی خوش نصیب ہیں وہ آنکھیں جنھوں نے خداوند عالم کی تجلی گاہِ خاص کا جلوہ دیکھا، بہت خوش بخت ہیں وہ قدم جو کعبۃ اﷲ شریف کے طواف میں دوڑے، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی میں کوشاں رہے، زندگی کا بڑا قیمتی تھا وہ لمحہ جو میدانِ عرفات میں نصیب ہوا، اور ندامت کے چند قطرے وہاں کی خاک میں جذب ہو گئے،بڑی روشن تھی وہ رات جو مزدلفہ میں گزری، کتنی مبارک تھی وہ صبح جس میں وقوف مزدلفہ نصیب ہوا اور دعاؤوں کو اذنِ قبول ملا، پھر منیٰ کی وہ سرگرمیاں مبارک صد مبارک! کبھی رمیِ جمرات ہے ، کبھی قربانیوں کا اہتمام ہے، ابھی طوافِ زیارت کے لیے حرم کو روانگی ہے، پھر معاً واپسی ہے، کبھی سر منڈانے کی عبادت ہے؛ غرض اﷲ کی راہ میں وہ دیوانگی ہے کہ رحمت الٰہی ٹوٹ ٹوٹ کر برسی، یہ ملتزم ہے جہاں لپٹ لپٹ کر حاجی دعا کر رہا ہے، یہ حجر اسود ہے جس تک پہنچنے کی بیتابی آدمی کو بے قرار رکھتی ہے مگر موقع نہیں مل پاتا، عاشقوں کا ہجوم ہی کچھ اتنا ہے کہ یہ بے تابی حسرت بن کر دل میں رہ جائے، یہ حطیم ہے، اس میں دو رکعت نماز حاصلِ زندگی ہے، یہ مقامِ ابراہیم ہے کاش یہاں دو رکعت پڑھنے کی فرصت میسر آ جائے، یہ آبِ زمزم ہے، خوب پیجئے، پیٹ بھر کر پیجئے، جس مقصد کے لیے پیجئے وہی حاصل ہو، بیمار ہوں تو شفا حاصل ہو، بھوکے ہوں تو آسودگی حاصل ہو، پیاس کی بے قراری ہو تو سیرابی ملے، نیت کر لیجئے کہ آخرت کی پیاس سے سیرابی ہو، انشاء اﷲ وہ بھی یہیں حاصل ہو جائے گی۔ پھر یہ طیبہ پاک کی سرزمین ہے، آرامگاہِ رسول ہے (ﷺ)، مدینہ پاک کی سرزمین! اسلام کے عہدِ اولین کی یادگاروں کی امین! یہاں وہ خزانہ مدفون ہے،