بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
تصویر سازی! ایک عام گناہ
پچھلے شمارے میں ہم نے اپنا اور اپنے معاشرے کاایک احتساب تحریر کیا تھا کہ یہود ونصاریٰ کی تقلید میں ہمارے معاشرے میں ایسی نئی نئی باتیں گھس آئی ہیں ، جن سے ہمارے اسلاف واقف نہ تھے، اسلاف تو کیا واقف ہوتے ہم اخلاف بھی ان سے ناآشنا تھے ، اس طرح کی نئی باتیں جب ابتداء ً داخل ہوتی ہیں تو لوگ چونکتے ہیں ، لیکن جب وہ چیزیں بار بار نگاہوں کے سامنے آتی ہیں تو اذہان وقلوب ان کے دیکھتے رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور وہ چیزیں مانوس ومالوف بن جاتی ہیں ۔
پہلے وعظ کی مجلسیں ہوتی تھیں ، ایک سادہ سی مجلس ہوتی ، لوگ ادب سے بیٹھ جاتے، کوئی عالم سیدھے سادے انداز میں دین اور اﷲ ورسول کی باتیں سنادیتا، لیکن اب یہ مجلسیں ، جلسوں ، کانفرنسوں اور سیمیناروں کی شکل میں تبدیل ہوگئیں ۔ شکل کی تبدیلی نے ان کے لوازم اور تقاضوں کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔
اجتماعات کی دنیا میں آج کل ایک نئے لازمے کاا ضافہ ہواہے ، اس سے اب مشکل سے کوئی مجلس خالی ہوتی ہے ، وہ ہے ’’تصویر سازی ‘‘ چھوٹا بڑا کوئی اجتماع ہو ، کیمرہ لے کر کچھ لوگ پہونچ جاتے ہیں ، یا بلائے جاتے ہیں ، تاکہ مقرر کی ، صاحب صدر کی ، اسٹیج والوں کی اور جلسہ میں شریک حضرات کی تصویریں اتاری جاسکیں ۔نکاح کی مجلس ہو ، دعوت میں لوگ اکٹھا ہوں ، یہ کام ضرور ہوگا۔ تصویر سازی گناہ ہے ، حرام ہے، لیکن یہ گناہ اتنا پھیل چکا ہے اور یہ حرام اتنا عام ہوچکا ہے اور اس کی اتنی شکلیں وجود میں آچکی ہیں کہ اس کے حرام وناجائز ہونے کا تصورذہنوں سے محو ہونے لگا ہے، اس طرح کے عام مجامع میں جہاں صرف