بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
مسلمانوں کے معاشرہ میں اخلاق کی حالتِ زار
یہ خاکسار راقم الحروف پچھلے دنوں گورکھپور کے قصبہ بڑھل گنج سے شہر غازی پور جارہا تھا ، دوہری گھاٹ میں چند پولیس والوں نے گاڑی رُکوائی اور ایک کانسٹبل کو اس پر بیٹھا دیا کہ انھیں مئو شہر میں اتار دیجئے گا ، گاڑی چل پڑی ، میں نے کانسٹبل سے اس کے تعارف کے متعلق پوچھا ، وہ اپنا نام ونسب اور وطن بتاتا رہا ، اسے جب بولنے کی گنجائش ملی تو دیر تک بولتا رہا ، وہ کہہ رہا تھا کہ میں ڈیوٹی کے لئے مختلف جگہوں میں جاتا رہتا ہوں ، لیکن مسلمانوں کی فلاں فلاں آبادی میں جتنے جاہل لوگ ہیں اتنے جاہل میں نے کہیں نہیں پائے ، میں یہ سن کر سناٹے میں آگیا ، میں نے دل میں سوچا کہ جن جگہوں کا نام لے رہا ہے وہاں پڑھے لکھے لوگ بہت ہیں ، مگر یہ پولیس ہے ، اس کا سابقہ پڑھے لکھے لوگوں سے کیوں پڑنے لگا ، اسے تو معاشرہ کے جاہل افراد ہی ملیں گے ، مگر وہ جہالت کی جو باتیں ذکر کررہا تھا ، اسے سن کر سر شرم کی وجہ سے جھک گیا ، وہ جو کچھ کہہ رہا تھا بالکل سچ کہہ رہا تھا ، انداز ذرا تیکھا اور کڑوا تھا ، اور ایک پولیس والے سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
وہ کہہ رہا تھا اور اپنی مخصوص زبان میں کہہ رہا تھا ، میں اس کا حاصل لکھ رہا ہوں کہ مسلمان نوجوانوں اور عام لوگوں کی خود سری اور آوارگی کا یہ عالم ہے کہ کسی بڑے کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، انھیں سمجھایا جاتاہے ، مگر ذرا بھی اثر نہیں لیتے ، کتنے کام اس سرکشی کی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں ، بات ماننے کا جذبہ سرے سے ہے ہی نہیں ، بے وجہ لوگوں کو چھیڑنا ، مذاق اڑانا ، تکلیف پہونچا کر خوش ہونا جیسے شیوہ بن چکا ہے ۔
دوسرے یہ کہ ان نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ بات شروع کریں گے تو گالی سے