بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
احتسابِ نفس
یہ دنیا جسے آدمی لطف وکیف میں ہوتا ہے ، تو عالم رنگ وبو کہتا ہے ، اور جب غم واندوہ کے احوال سے دوچار ہوتا ہے ، تو عالم فانی وناپائیدار کہتا ہے ، اور یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا کا رنگ ہمہ آن متغیر ہوتا رہتا ہے ، یہ تغیر دوطرح کا ہوتا ہے ، کبھی خوبی سے خرابی کی جانب اور کبھی خرابی سے خوبی کی جانب ، آدمی ان تغیرات کو بالخصوص جب کوئی خرابی رونما ہوتی ہے تو طبعی اسباب وعوامل کی طرف منسوب کرکے مطمئن ہوجاتا ہے ، اور خود کو سارے تماشے سے الگ کرلیتا ہے ، گویا خود اس کی ذات اور اس کے اعمال وافعال کاان تغیرات میں کوئی دخل نہیں ہے ، سمجھتا ہے کہ حالات کی رفتار یہی ہے اور اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے ، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نتائج کچھ اس صورت میں نکلنے لگتے ہیں اور حالات ایسے پیدا ہونے لگتے ہیں کہ منطق منھ دیکھتی رہ جاتی ہے ، اسباب طبعی ہکا بکا رہ جاتے ہیں ، ذہانتیں گنگ ہوجاتی ہیں ۔ عام احوال وحوادث میں بھی اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے اور حکومتوں کے عزل ونصب کے خصوصی حالات میں بھی اس کا تماشا ہوتا رہتا ہے ، لیکن انسان بڑا خود فراموش ہے ، وہ ان باتوں کی بھی ایسی توجیہ کرلیتا ہے ، کہ اپنی ذات اور اپنے کردار پر کوئی آنچ نہ آئے ، لیکن قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ان تغیرات وانقلابات میں انسانی نیتوں ، ارادوں ، اور انسانی افعال واعمال کا بڑا دخل ہوتا ہے ، یہ سب کچھ صرف اتفاقاً نہیں ہوجاتا بلکہ ان کے پیچھے آدمی کے اپنے احوال کی بنیاد پر حق تعالیٰ کے تصرفات کا کرشمہ ہوتا ہے۔
حق تعالیٰ کاارشاد ہے : ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ( سورہ روم)