بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
سیرت طیبہ کے دو اہم پہلو :ذکر اورحلم
الحمد ﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ خاتم النبیین
وعلیٰ أصحابہ الطیبین المہتدین أمابعد !
انسان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اسے خوب سے خوب تر کی تلاش ہوتی ہے، اسے ایک چیز ملتی ہے ، وہ اسے پسند آتی ہے ، پھر اسے دوسری چیز ملتی ہے جو پہلی سے بڑھ کر خوبصورت اور مفید ہوتی ہے ، تو اسے لے لیتا ہے ، اور پہلی چیز کو چھوڑدیتا ہے ، کیونکہ اس سے خوب تر چیز اسے مل گئی ، اسی طرح ترک واختیار کا معاملہ چلتا رہتا ہے ، عروج وترقی کی تمام عمارتیں اسی بنیاد پر قائم ہیں ،وہ دیکھتا رہتا ہے ، سراپا جستجو بنا رہتا ہے، پھر اسے کوئی بہتر چیز مل جاتی ہے ، جھونپڑے میں رہنے والا آدمی محل تلاش کرتا ہے، چیتھڑے لپیٹنے والا فقیر لباسِ فاخرہ کی جستجو میں رہتا ہے ، غربت ، امارت کے پیچھے دوڑتی ہے ، جہالت کو علم کی تلاش ہوتی ہے ، کہاجاتا ہے کہ دنیا اسی طریقۂ عمل سے بامِ عروج پر پہونچتی جارہی ہے ، دنیا نے کہاں سے کہاں تک ترقی کرلی ، پاؤں سے چلنے والا انسان فضاؤں میں پرواز کررہا ہے ، سطح دریا پر کشتی چلانے والاملاح پانی کی تہوں میں اتر کر جہاز چلا رہا ہے، فضا میں منتشر ہوجانے والی آواز ہی کو نہیں دوردراز کی صورتوں کو بھی ایک چھوٹے سے ڈبے میں گرفتار کرکے تماشا دکھا تاہے، بڑے بڑے کتب خانوں کو چھوٹی چھوٹی پلاسٹک جیسی تھیلیوں میں بھر لیتا ہے ، غرض مادی دنیا کے ہر شعبے میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں آدمی نہ جانے کہاں سے کہاں پہونچ گیا ہے ۔
لیکن کیا دنیا صرف وہی ہے ، جو انسان اپنے وجود کے باہر دیکھتا ہے ، جس میں اس کا مادی وجود یعنی بدن جو گوشت وپوست اور ہڈی اور خون سے مرکب ہے ،شامل ہے ۔ کیا