بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
حوادث ومصائب کا سرچشمہ
گجرات میں اس صدی کا عظیم ترین تباہ کُن زلزلہ آیا ، ہزاروں عمارتیں زیر وزبر ہوگئیں ، لاتعداد انسان اور حیوان لقمۂ اجل بن گئے ، مال وزر کی بہت بڑی مقدار زیر زمین چلی گئی ، ان سب کی گنتی اﷲ ہی جانتا ہے ، انسانوں کو انسانوں سے ہمدردی ہے ، ساری دنیا کے انسان گجرات کی طرف امداد اور راحت کا سامان لیکر دوڑ پڑے ، جس سے جو کچھ بن پڑتا ہے مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے ، انسانیت سے ہمدردی کایہی تقاضا ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی جائے ، ان کے رنج وغم میں شریک ہوا جائے ، اس طرح صدمہ ہلکا ہوجاتا ہے۔
ایک طرف یہ کام ہورہا ہے اور اچھا ہورہا ہے ، گوکہ اس میں بدنیت افراد خرابیاں بھی پھیلارہے ہیں ، تاہم راحت رسانی کاکام ہورہا ہے ، لیکن دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس زلزلہ کی توجیہات کی تلاش میں سرگرداں ہیں ، زلزلہ کیوں آیا؟ کون کون سے علاقے زلزلے کی زد میں ہیں ؟ کب کب زلزلہ آیا؟ کہاں کہاں آیا؟ بس یہی تحقیقات ہورہی ہیں اور ان تحقیقات کے نتائج اخبارات میں آتے رہتے ہیں ۔ عجیب بات ہے ، عذابِ الٰہی کاایک جھٹکا ایک بہت بڑے خطے کو زیر وزبر کرگیا ، اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے غافل انسان اس کی حقیقت اور ماہیت کی کھوج لگارہا ہے، اور یہ کہہ کر مطمئن ہونے کی کوشش کررہا ہے کہ پہلے بھی بہت سے زلزلے آچکے ہیں اور زمین کے اندرونی حصے میں فلاں فلاں حرکتیں ہورہی ہیں ، جن کے اثر سے وہ ہل جاتی ہے ، پھٹ جاتی ہے ، بس تحقیق ہوگئی اور کام ختم ہوگیا۔ انسان ان درمیانی مرحلوں میں کھوجاتا ہے ،اور اس طرح کے حادثات سے جو سبق لینا چاہئے اس سے آنکھیں موند لیتا ہے۔