ملے اور صلح وصفائی کی بہت کوشش کی ، مگر جب ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑااور خونریزی بڑھتی ہی چلی گئی تو مجبوراً ہم نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔
طالبان جس جماعت کا نام ہے ، وہ ا ﷲ والے برگزیدہ لوگ ہیں ، انھوں نے ایک بہترین اسلامی حکومت قائم کی ، اور دنیا اسلامی حکومت کے فوائد سے آشناہوئی ، لیکن موجودہ کفر کی حکومتوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ کوئی اسلامی حکومت قائم ہو،اور ایسے صاحب ایمان برسر اقتدار آئیں جو ان سے مرعوب نہ ہوں ، روس کی طاقت تو بکھر چکی تھی ، اب امریکہ کی واحد طاقت ہے ، جس کا رعب سب پر قائم ہے ، ساری دنیا جانتی ہے اور دل سے مانتی ہے ، زبان سے کہنے کی ہمت ہو یا نہ ہو ، کہ امریکہ نے اپنی بڑائی کی دھونس جمانے کے لئے مکروفریب ، جبر وتشدد ، ظلم و ستم اور زور زبردستی کاکوئی حربہ نہیں چھوڑا ہے ، جسے بے دریغ استعمال نہ کیا ہو۔ ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں جو حادثہ ہوا ، اس نے طالبان کے خلاف ایک موقع فراہم کردیا اور ساری دنیا کے منع کرنے کے باوجود اس نے جھوٹا الزام لگاکر نہایت بے دردی کے ساتھ افغانستان پر بم برسانا شروع کردیا۔
مسلمانوں کا رد عمل:
خیر یہ واقعہ تو ہوچکا ، مگر مسلمانوں پر اس کاردعمل یہ ہوا کہ ان میں ایک طرح کی مایوسی اورشکستگی سی طاری ہوگئی ہے ، اور دلوں میں ایک خلش سی پیدا ہوگئی ہے کہ اتنی دعائیں ہوئیں لیکن کیا انھیں شرف قبولیت نہیں حاصل ہوا؟ کیا ان دعاؤں میں کوئی کمی تھی جو بارگاہِ الٰہی میں لائق قبول نہ بن سکیں ؟ یا طالبان میں کوئی ایسی بڑی کمزوری تھی کہ ان کی طرف منسوب ہوکر دعاؤں کی طاقت گھٹ کر رہ گئی؟ یا ملأ اعلیٰ کی طرف سے امریکہ اور اس جیسی باطل قوتوں کو نصرت ملی ہوئی ہے ؟ کہ ان مقابلے میں کی گئی دعائیں اپنا اثر کھودیتی ہیں ؟ یہ سوالات مسلمانوں کے دلوں میں اٹھتے ہیں ، کچھ لوگ زبان وقلم سے انھیں ظاہر کردیتے ہیں اور کچھ لوگ خاموش رہ جاتے ہیں ، مگر خلش رہتی ہے۔