میں ایک راہ متعین ہے ، اور عددی لحاظ سے بھی نیز علم وفضل ، زہد وتقویٰ ، خشیت وللّٰہیت کے اعتبار سے بھی امت کا کوئی فرقہ اس کا ہم پلہ نہیں ۔ اور اسی مجموعہ کو ہم ’’ اہل سنت والجماعت ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ سوادِ اعظم کی راہ سے الگ نہیں ہونا چاہئے۔
امت کسی غلط مسئلہ پر متفق نہیں ہوسکتی:
رسول اﷲ انے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ :
إن اﷲ لایجمع أمتی أوقال أمۃ محمدٍ علیٰ ضلالۃ ویداﷲ علی الجماعۃ ومن شذ شذ فی النار۔( ترمذی )
اﷲ تعالیٰ میری امت کو کسی غلط مسئلہ پر متفق نہیں کرے گا، اور اﷲ تعالیٰ کی مدد جماعت کے اوپر ہے اور جو اس سے ہٹا وہ جہنم میں گیا۔
آپ کا ارشاد برحق ہے ، اور خدا کی جانب سے ہے ۔ آج ہم چودہ سو سال کا تاریخی تجربہ رکھتے ہیں کہ کسی دور میں بھی امت کے اجتماعی مزاج نے کسی غلط مسئلے کو کبھی قبول نہیں کیا ہے ، جب بھی کسی نے کوئی غلط مسئلہ اٹھایا اہل حق نے ٹوکا بالآخر گمراہی حرفِ غلط بن کر مٹ گئی اور حق کا اجالا پھیل کر رہا۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ارشاد:
امام ربّانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :
’’دینداری کا حصول اہل سنت والجماعت کے طریق حق کو اختیار کرنے پر موقوف ہے ، اسلام کے تمام فرقوں میں یہی جماعت نجات یافتہ ہے ، بزرگواران اہل سنت کی پیروی کے بغیر نجات محال ہے ، اور ان کی رائے تسلیم کئے بغیر فلاح ناممکن ۔ اس مضمون پر عقلی ، نقلی اور کشفی دلائل شاہد ہیں ، اگر یہ معلوم ہوکہ کوئی شخص ان اکابر کی راہ ِاُستوار سے رائی بھر بھی ہٹا ہوا ہے تو اس کی صحبت کو سمِ قاتل سمجھنا چاہئے اور اس کی ہمنشینی کوزہر افعیٰ۔ ( مکتوب : ۲۱۳،دفتر اوّل)