بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
بے لگام سلفیت
ایک زمانے میں ہندوستان کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا اور کھلاہوا فتنہ ’’ رافضیت ‘‘کا تھا ۔ علماء اہل سنت بالخصوص حضرت مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی،شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، حضرت سیّد احمد شہید ، مولانا محمد اسماعیل شہیداور مولانا عبد الشکور صاحب لکھنوی نے اس فرقہ پر ضرب لگائی تو مسلمان اس سے چوکنے ہوگئے اور بہت کچھ اپنے آپ کو اس سے بچالیا، ورنہ اس فرقہ نے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ہی پر کفر ونفاق کی تہمت رکھ کر مسلمانوں کودین اسلام سے منحرف کرنے کی اپنی والی کوشش کرڈالی تھی ، اور اس کے ساتھ بہت سے کفریہ اور شرکیہ کلمات اور عقائد مسلمانوں کے معاشرہ میں رائج کردئیے تھے۔
اس فرقہ کا زور گھٹ رہاتھا کہ بریلویت اور رضاخانیت کا طوفان اٹھا، اس فرقہ نے کفر کے فتوؤں کی تلوار ہاتھ میں لے لی ، اور اپنے خیال ونظریہ سے جس کو بھی علیٰحدہ پایا ، اس پر یہ تلوار چلادی ۔ مسلمانوں کی کوئی جماعت اور کوئی شخصیت بجز رضاخانیت اور رضاخانیوں کے ایسی نہیں بچی جو ان کے کفریہ فتووں سے گھائل نہ ہوئی ہو، اب بھی یہ فرقہ اپنے اس ’’ عمل خاص‘‘ میں مصروف ہے ، مگر اب تلوار کی کاٹ وہ نہیں رہی ، جو پہلے تھی۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو اس فتنہ سے ذرا مہلت مل رہی تھی کہ تکفیر وتضلیل کا ایک دوسرا طوفان اٹھنے لگا ، اس طوفان کو اٹھانے والے ہیں تو ہندوستانی اور پاکستانی غیر مقلدین! مگر سہارا لینے کی کوشش کی ہے وادیٔ نجد سے! اس کی اُٹھان بھی ٹھیک اسی شان سے ہوئی ہے جس شان سے رضاخانیت کافتنہ اٹھا تھا ، یعنی جیسے احمد رضاخان بریلوی نے ہندوستان کے