بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
وَلٰٰکِنَّہٗ أخْلَدَ إلَی الأْرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ (سورۃ الاعراف:۱۷۶)
(مگر وہ پستی کی طرف جھکا اور ہوائے نفس کی پیروی کی)
ایک فاضل دیوبند نے ایک دُنیاوی امتحان آئی۔ایس کا پاس کیا تھا ، اب وہ کلکٹر بننے کے لائق ہوگیا تھا ، اس پر خوشی اور فخر ومباحات کی دھوم مچ گئی تھی، اس کے احتساب میں یہ مضمون تحریر کیاگیا۔
دین اور علم دین اﷲ تعالیٰ کاایک بیش قیمت احسان ہے ، اس کے واسطے سے حق تعالیٰ انسان کو دنیا وآخرت کی رفعتیں عطا فرماتے ہیں ۔ علم دین کے کچھ تقاضے ہیں ، کچھ حقوق ہیں ، کچھ آداب ہیں ، انھیں بجا لایا جائے ، تو علم دین کے حاملین ایک لازوال درجہ اﷲ کے نزدیک بھی اور کائنات کے نزدیک بھی پاتے ہیں ، اور اگر اس کے تقاضوں کا ، اس کے حقوق کا ، اور اس کے آداب کا لحاظ نہ رکھاگیا ، بلکہ ان سے اعراض اور رو گردانی کی گئی ، تو چاہے دنیاداروں میں اس کی قدرے واہ وائی ہوجائے ، مگر نہ خالق کے نزدیک اس کا کوئی درجہ رہتا ، نہ مخلوق کے یہاں اس کی کوئی قدر ہوتی ۔
اس موضوع پر قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے بہت وضاحت کے ساتھ رہنمائی فرمائی ہے ۔ علمائے دین کے لئے بہت غور وفکر کا محل ہے ، اور عامۃ الناس بھی خصوصیت کے ساتھ اسے سمجھیں ، اور مسلمانوں کاوہ طبقہ بھی جس پر دنیاداری کا غلبہ ہے ، اپنے ایمان کی شمع ذرا تیز کرکے اس کو دیکھیں ، اور اپنی خواہش نفس اور دنیاوی نظریۂ وتاویل سے ہٹ کر اﷲ کی دی ہوئی ہدایت پر غور کریں ۔ حق تعالیٰ نے سورۃ الاعراف میں بنی اسرائیل جو پیغمبروں کی وارث اور صاحب کتاب قوم تھی ، کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: