بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
تنقید کا دوہرا معیار
کسی شہر میں کوئی رئیس تھے ، ان کا تکیۂ کلام تھا ’’جوہے سو ہے ‘‘ ہر گفتگو میں یہی مہمل جملہ ان کی زبان سے ادا ہوتا رہتا تھا ، ایک مرتبہ انھوں نے کسی سے فرمائش کی ،کہ تم بازار جاؤ ’’جوہے سو ہے ‘‘ وہاں سے ’’جوہے سو ہے ‘‘ فلاں سامان ’’جوہے سو ہے ‘‘ لیتے آؤ، ’’جوہے سو ہے ‘‘ ۔ وہ شخص چلاگیا ، کچھ دیر کے بعد وہ خالی ہاتھ واپس آیا ، رئیس نے خالی ہاتھ دیکھا تو ان کی پیشانی شکن آلود ہوگئی ، انھوں نے وجہ پوچھی تو یہ کہتا ہے ، میں بازارا گیا ’’جوہے سو ہے ‘‘ ، مگر آج ’’جوہے سو ہے ‘‘ بازار ’’جوہے سو ہے ‘‘ بند ہے ، ’’جوہے سو ہے ‘‘ ۔ یہ سن کر وہ رئیس آگ بگولہ ہوگئے ، اسے مارنے کو دوڑے ، کہتے جارہے تھے کہ میں کہوں ’’جوہے سو ہے ‘‘ تم مت کہو ’’جوہے سو ہے ‘‘ ۔
یہی حال ہمارے درمیان پائی جانی والی بعض جماعتوں کا ہے، کہ جس کام کو وہ خود نہایت بلند آہنگی اور جرأت کے ساتھ کررہی ہیں ، اگر جواب کے طور پر انھیں کے حق میں وہی کام کوئی دوسرا کردے، توان کا مزاج بگڑ جاتا ہے ، حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ جس طرز عمل کو انھوں نے اپنے لئے اختیار کیا ہے ، دوسروں کو بھی اس کے استعمال کی اجازت دیں ۔ مثلاً ایک جماعت ہے جو ’’عمل بالحدیث ‘‘ کا دعویٰ کرتی ہے ، دعویٰ تو بہت اچھا ہے ، اور ہر مسلمان اس کو اپنی سعادت سمجھتا ہے کہ وہ رسول اﷲ اکی حدیثوں پر عمل کرے۔ کوئی شخص جو رسول اﷲ اپرایمان رکھتا ہو، اس کے بارے میں یہ سوچا نہیں جاسکتا کہ اس کے پاس رسول اﷲ اکا ارشاد آئے اور وہ اسے رد کردے، لیکن اس جماعت کے تیور ایسے ہیں ، جیسے دوسرے لوگ عمل بالحدیث سے تہی مایہ ہیں ۔چنانچہ ان کا یہ تیور ان کی تحریروں اور تقریروں سے ظاہر