بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
حالات کے بحران میں دستور العمل
ہمارے ملک کے حالات رفتہ رفتہ وہ رخ اختیار کرتے جارہے ہیں جس سے علماء کرام ، مسلم سیاسی زعماء اور عام مسلمانوں میں بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ، ہم نے پہلے انھیں صفحات میں ذکر کیا تھا کہ موجودہ حکومت ملک کے حق میں عموماً اور مسلمانوں کے حق میں خصوصاً بد نیت ہے ، اس کی بدنیتی کے مظاہر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہتے ہیں ، یہی بدنیتی تھی جس نے اجودھیا کی ایک تاریخی مسجد کو منہدم کرایا،اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں فسادات کی ایک لہر چل پڑی ، اور پھر اس کے بعد خدائی قہر کا کوڑا بھی خوب برسا ، پھر جب سے مرکز میں موجودہ حکومت بنی ہے اس کی بدنیتی کا ظہور جلد جلد ہونے لگا ہے ۔ اس حکومت کو۔۔۔۔۔حکومت ہی کیا۔۔۔۔۔اور ہر شخص کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کو دینی استقامت، مذہبی پختگی اور اسلامی تشخص بخشنے کا عمل ان مدارس دینیہ میں انجام پاتا ہے جن کے قیام وبناء کاآغاز اسی وقت ہواتھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی مغلیہ حکومت کا چراغ جھلملا جھلملا کر ۱۸۵۷ء میں بجھ گیا تھا۔ دار العلوم دیوبند قائم ہوا، اس کے بعد مدارس کا سلسلہ چل نکلا ، مدارس ہی کے طفیل ہندوستان میں مسلمان بچے رہے ، اسلامی تشخص بچا رہا ، ان مدارس سے اتنے طاقتور علماء اٹھے جو حکومتوں سے بے تکلف ٹکرا سکتے تھے ، وہ انگریزی سامراجیت سے ٹکرائے ، اور ایسا ٹکرائے کہ اسے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ ۱۹۴۷ء میں جب ملک تقسیم ہوگیا تو ہندوستان کے مسلمان ایک مرتبہ پھر لہولہان ہوگئے ، اور اندیشہ ہوچلا تھا کہ پاکستان بننے کے انتقام میں یہاں کی اکثریت انھیں نگل جائے گی ، لیکن یہ علماء ہی تھے جنھوں نے اﷲ کی توفیق سے مسلمانوں کو ، ان کے دینی وجود کو ، ان کے اسلامی قانون و شریعت کو سنبھالا اور بچایا ۔