بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
مدارسِ اسلامیہ اور اقتصادیات کی تعلیم:
بے جا مشورے
ایک عام تجربہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی سنگین اور مہلک مرض میں مبتلا ہوتا ہے ، تو اطباء جو علاج کرتے ہیں وہ تو ہوتا ہی ہے ، بیمار پُرسی کے لئے آنے والے بہت سے لوگ مریض اور مریض کے گھر والوں کو بڑی فیاضی سے مشورہ دیتے ہیں ،کہ فلاں ڈاکٹر اس مرض کا بہت اچھا علاج کرتے ہیں ، فلاں حکیم صاحب کے یہاں بہت سے مریض تندرست ہوئے ہیں ، اس مرض میں فلاں طرح کی دوا بہت موثر ہوتی ہے وغیرہ ، پھر کمزور طبیعت کا مریض موجودہ علاج سے غیر مطمئن ہوکر نئے نئے تجربے شروع کردیتا ہے اور مرض کی گرفت شدید ہوجاتی ہے ۔ اس صورتحال سے سابقہ اکثر لوگوں کو ہواہوگا۔
یہ حال تو انفرادی اور شخصی مریضوں کا ہے ، بعض مریض اجتماعی اورقومی پیمانے کے ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ بھی یہ عمل جاری ہوتا ہے ، اگر وہ مریض طاقتور اطباء اور مضبوط چارہ گروں کے انتظام میں ہوتا ہے، تو مشوروں میں قدرے احتیاط برتی جاتی ہے اور اگراس کے تیمار دار اور چارہ گر کمزور ہوتے ہیں ، تو مشوروں کی وہ چاند ماری ہوتی ہے کہ یہ خیال گذرنے لگتا ہے کہ اس مریض کی حیات وصحت منظور ہے یا اس کی بیماری وموت چاہی جارہی ہے۔
ایک قومی مریض کا قصۂ پُردرد سنئے ! یہ مریض ہندوستان کا دینی وعربی مدرسہ ہے ! مان لیا گیا ہے کہ یہ بہت بیمار ہے ، اس کی صحت میں بہت سے رخنے ہیں ، اس کی حیات میں