بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
دخل در معقولات
کچھ دنوں پہلے اخبار ’’ راشٹر یہ سہارا‘‘ میں ایک مراسلہ نظر سے گذرا ، جس میں کسی صاحب نے چرمِ قربانی کے سلسلہ میں علماء کرام کو للکارا ہے ، کہ وہ قربانی کے بارے میں صحیح موقف سے آگاہ نہیں کرتے ، سال بھر پہلے اسی اخبار میں سوال اٹھایا گیاتھا مگر علماء نے کوئی جواب نہیں دیا، اور بھی بہت کچھ ارشاد فرمایا گیا تھا ۔ اﷲ جانے اخبار میں مراسلہ شائع کرکے لوگ کیا تیر مارلیتے ہیں ، یہ تو اپنی بے علمی کی نمائش ہے ۔ چرم قربانی کا مسئلہ کوئی پیچیدہ اور لاینحل تو نہیں ہے کہ اس کو اخبارات میں موضوع بحث بنایا جائے۔ سیدھی سادی بات یہ تھی کہ اگر کسی صاحب کوئی مسئلہ معلوم نہیں ہے تو کسی معتبر عالم کے یہاں سوال لکھ کر بھیج دیں ، وہاں سے جواب آجائے گا ، اس کا یہ طریقہ سرے سے غلط ہے کہ اخبار میں مراسلہ چھاپ کر انتظار کیا جائے کہ علماء اس کا جواب دیں گے ، جو لوگ تدریس وفتاویٰ کے کام میں مشغول ہیں ان کو ان مراسلات کے پڑھنے کا موقع ہی کب ملتا ہے ، اور ان کے ذمہ یہ کب ہے کہ وہ اخبار ضرور ہی پڑھیں ؟ اور جو کسی نے سوال اٹھایا ہو اس کا جواب ضرور دیں ؟ ان سے براہ راست سوال کیجئے ، وہ اگر نہ جواب دیں تب البتہ ایک بات ہے ، ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اسی طریقہ سے اس کو کرنا چاہئے۔
اور یہ جو عرض کیا گیا کہ چرم قربانی کا مسئلہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں کہ اس کو اخبارات میں موضوع بنایا جائے ، تو در حقیقت یہ ایک سیدھی بات ہے کہ چرم قربانی کا مالک وہی ہے جس نے قربانی کی ہے ، اس کا صدقہ کرنا اس کے ذمے واجب نہیں ہے ،ا سے اختیار ہے ، خود اپنے استعمال میں لائے یا کسی کو دیدے۔ ہاں اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے