ڈالا جائے ؟ علماء حیران ہیں ۔ نمود ونمائش کی تو ہر دعوت ممنوع ہے ،اور یہ تو وہ دعوت ہے جس کا ذکر ہی سرے سے نہیں ملتا۔ اتنی بات کافی تھی کہ دولہا کے ساتھ چند لوگ لڑکی والوں کے گھر آجاتے ، ان کی ضیافت وہاں ہوجاتی ، نکاح ہوجاتا ، اس کے بعد دولہن کو رخصت کراکے لوگ لے آتے ، پھر یہاں ولیمہ ہوجاتا ، جس کو چاہتے بلاکر شریک کرلیتے ، لیکن کس کس بات پر رویا جائے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ بارات رنگ رلیوں کے ساتھ ہنگامہ مچاتی چل رہی ہے ، لاؤڈاسپیکر پر نظم خوانی ہورہی ہے ، پٹاخے چھوٹ رہے ہیں ، چند قدم کے فاصلے پر بارات جانی ہے ، لیکن اس کے لئے گاڑیاں سج رہی ہیں ، خاصا چکر کاٹ کر بارات جارہی ہے ، کسی مسجد سے اذان کی آواز آرہی ہے ، مگر بارات چل رہی ہے ، آیا کرے اذان کی آواز، بارات کی صدا کچھ اور ہوتی ہے ، بڑا دردناک منظر ہوتا ہے ، مؤذن کی آواز دب جاتی ہے ، جس کی آواز تو آواز قد بھی قیامت کے دن بلند ہوگا، اس کی آواز دب جاتی ہے اور نظم خوانیوں کی ، آتش بازیوں کی آواز غالب رہتی ہے۔
اورجذبۂ اسلامی کا حال یہ ہے کہ ایک صاحب جو ماشاء اﷲ صورت سے دیندار تھے ، نماز بھی پڑھتے تھے ۔ ان کے یہاں شادی طے پائی اور تمام رسوم وخرافات کے ساتھ ہونی طے پائی ۔ ان کے ایک رشتہ دار نے اس لئے کہ شاید کچھ اصلاح ہوجائے ، حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’ اصلاح الرسوم‘‘ انھیں دی کہ اس کا مطالعہ کرلیں ، اس کتاب میں شادی بیاہ کی رسموں کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لے کر اصلاح کی صورت بتائی گئی ہے، انھوں نے اُلٹ پلٹ کر ایک نظر کتب پر ڈالی اور یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ ابھی شادی بیاہ کی مشغولیت ہے ،بعد میں پڑھوں گا۔ اس طرح لوگوں نے اپنے خودساختہ رسوم کو پکڑ رکھا ہے ، کہ اس کی اصلاح کے سلسلے میں کچھ پڑھنا بھی گوارا نہیں ہے۔
مسلمانوں ! ہمارا دین ایک مکمل دین ہے ، اس میں نہ اضافہ کی گنجائش ہے اور نہ کمی کرنے کی اجازت ہے ، اس کے دائرے میں جو کچھ ہے وہ اﷲ کے لئے ہے ، اور اس