لیکن اب تقریبِ نکاح کے جو احوال سامنے آتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شریعتِ اسلام کے علاوہ کوئی نئی شریعت وجود میں آگئی ہے ، جس کی پابندی اسی طرح کی جاتی ہے جیسی شریعتِ اسلامی کی پابندی کرنی چاہئے۔ اور یہ سب کچھ اس خدائی ہدایت نامے کے تحت نہیں جسے اﷲ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے ، جس پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے ، اس کے تحت نہیں بلکہ رسم ورواج کے اور جذبۂ نمود ونمائش کے تحت انجام دیاجاتا ہے ۔ اب تو زبانوں پر نکاح کاسادہ اور مقدس لفظ بھی نہیں آتا ، اسے شادی سے ، بارات سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اور شادی کا تصور آتے ہی دماغ میں وہ تمام خرافات اورفضولیات گردش کرنے لگتے ہیں جن کو لوگوں نے اس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے ۔ نسبت کے طے کرنے سے شروع ہوکر دولہن کے شوہر کے گھر آنے تک خرافات ولغویات کا ایک طوفان ہوتا ہے ، جس میں دونوں خاندان اور ن کے متعلقین زیر وزبر ہوتے رہتے ہیں ۔ نکاح کے باب میں شریعت نے ایک دعوتِ ولیمہ کی ہدایت کی ہے ، مگر اب تو نہ جانے کتنی دعوتیں بطور ایجادِ بندہ کے رائج کرلی گئی ہیں ۔ نسبت طے کرنے کا ہنگامہ لڑکی والوں کے یہاں بھی بپا ہوتا ہے اور لڑکے والوں کے وہاں بھی، اِدھر سے ایک فوج چڑھائی کرکے لڑکی والوں کے یہاں آجاتی ہے اوردعوت کا جشن ہوتا ہے، اور لڑکی والوں کے یہاں سے ایک لشکر لڑکے والوں کے گھر پہونچتا ہے ، بسااوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ اس میں دعوتِ ولیمہ سے بڑھ کر اخراجات ہوتے ہیں ، اس سے ایک دوسرے پر اپنی دھاک جمائی جاتی ہے ۔ نسبت طے ہوگئی ، پھر بارات کی دھوم دھام ہے ، جہیز کی فرمائشیں ہیں ، لین دین کا ہنگامہ ہے ، دعوت کا طوفان ہے ،اور نہ جانے کیا کیا ہے؟ ہم گوشہ نشینوں کو سب کی خبر کہاں ؟ مگر یہ سننے میں آتا ہے کہ اتنے لاکھ خرچ ہوئے ، اتنے سامان لائے گئے ، اتنے لوگوں نے دعوت کھائی ،وغیرہ۔ یہ وہ دعوت ہے جس کا شریعت اسلامی کی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ، علماء اسلام اسے جانتے ہی نہیں ، اسے صرف وہ جانتے ہیں جو علم دین سے مَس نہیں رکھتے ۔ لڑکی والوں کے یہاں فوج کی فوج چڑھا کر لے جانا ، یا لڑکی والوں کا اپنے جذبۂ نمائش کے لئے بے جا اہتمام کرنا احکامِ شریعت کے کس خانے میں