سرفراز ہوگا جو ہمہ دم نوافل میں اپنے آپ کو لگائے رہتاہے۔
لیکن افراد ہوں یا قومیں ،جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو وہی راہیں جو انھیں منزل کی کامیابی تک پہونچاتی ہیں ، ان کے لئے منزل سے دوری کا سبب بن جاتی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ان راہوں کا رُخ بدل گیا ہے ، نہیں ! ان کا استعمال غلط ہوجاتا ہے ۔ شریعتِ مطہرہ نے شادی اور نکاح کو ایک ہمہ گیراور بنیادی ضرورت تسلیم کرکے اس کی تکمیل کا نہایت سادگی کے ساتھ انتظام کیا ہے ، جس سے نہ کسی پر کوئی ناروا دباؤ پڑے اور نہ یہ کہ سرے سے اظہار خوشی ومسرت سے ممانعت ہو۔ نکاح کے معاملات بہر حال انسان کی زندگی میں ایک خوش گوار مرحلہ ہے ، جس پر خوشی کاا ظہار بجا ہے ، وہ خود بھی خوش ہواور دوسروں کو بھی اپنی اس خوشی میں شریک کرے۔ شریعت نے ان دونوں پہلوؤں کی رعایت کی ہے، سادگی تو یہ ہے کہ سیّدنا عبد الرحمن بن عوف ص مدینہ طیبہ میں حضور اکرم اکی موجودگی میں نکاح کرتے ہیں اور اس طرح نکاح کرتے ہیں کہ ان کے اور سب کے مرکزِ عقیدت اکو بھی خبر نہیں ہوتی۔ نہ کوئی دھوم دھام ، نہ بارات کا ہنگامہ ، نہ کسی طرح کا سوانگ ، بس ایک ضرورت تھی اسے پورا کرلیا، اور لطف یہ کہ جب رسول اﷲ انے نکاح کے متعلق کچھ آثار دیکھ کر خود ہی سوال کیا تب بتایا، مگر اﷲ کے رسول انے معلوم ہونے پر یہ تک نہیں فرمایا کہ کم ازکم مجھے تو بتادیتے ، میں نکاح کا خطبہ پڑھتا ، ایجاب وقبول کراتاوغیرہ، کچھ نہیں فرمایا ۔ آپ کی اس خاموشی نے اس بات کو متعین کردیا کہ سادگی ہوتو ایسی ہو، مگر ساتھ ہی ساتھ اس پہلو کی رعایت بھی فرمائی ، کہ یہ ایک خوشی کا موقعہ تھا ، اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہئے تھا ، تو فرمایا ولیمہ کرلینا چاہئے تھا ، خواہ ایک بکری ذبح کرکے اس پردعوت کردیتے۔
اس واقعہ سے نکاح کا سادگی کے ساتھ انجام پانا اور اس کے باوجود قدرے اہتمام کرنا دونوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اور یہی معیار ہے سادگی کا بھی اور اہتمام کا بھی! یعنی ابتداء ً سادگی کے ساتھ رشتہ کرلینا، پھر جب بیوی شوہر کے گھر آجائے تو ولیمہ کرلینا۔ اس میں دعوت کا اہتمام کرلیاجائے تو مضائقہ نہیں ہے، بہتر ہے۔