غلامی وپابندی ، اصل آزادی ہے، آدمی اپنے نفس کی خواہشات کا پابند ہو، اپنے معاشرے کے رسوم وقیود میں گرفتار ہو، کسی اپنے ہی جیسے انسان کی غلامی میں مبتلا ہو، شیطان کی گرفت میں جکڑا ہوا ہو، یہ واقعی غلامی ہے ، ذلت ہے ، انسانیت کی توہین ہے ۔ اس کے برخلاف اﷲ تعالیٰ کی غلامی ہو، شریعت کے احکام کی پابندی ہو، ہر لحظہ اسے اپنے مالک ومولیٰ کے چشم وابرو کاانتظار ہو، یہ حقیقی آزادی ہے ۔ آدمی اپنے گمانِ باطل کی بنیاد پر اس حقیقی آزادی سے گھبراتا ہے اور جو سرتاسر قید وبند ہے ، اسے پسند کرتا ہے ، لیکن اسے جلد ہی معلوم ہوجانا ہے کہ غلامی کیا ہے ؟ اور آزادی کیا ہے؟
انسانی زندگی کے طبعی حاجات وضروریات کا دائرہ اچھا خاصا وسیع ہے ،لیکن کوئی ضرورت وحاجت ایسی نہیں ہے جس کی تکمیل یااصلاح کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ورہنمائی موجود نہ ہو ،اور اس سے فائدہ اٹھاکر آدمی اسے خوشنودی ٔ پروردگارکا سامان نہ بنالے ، لیکن اس حاجت وضرورت کو برتنے والا جب اﷲ کی ہدایت سے بے نیاز ہوکر اپنی خواہش کے مطابق برتتا ہے تو بسااوقات اس کے ا وپر وبالِ جان ثابت ہوتی ہے۔
انسانی ضروریات میں ایک اہم ضرورت جس کی شاخیں ذیل درذیل ہیں ، جس ایک حاجت کی تکمیل سے بہت سی حاجتیں سر اٹھاتی ہیں اور آدمی کو اپنی زندگی ان حاجات کی تکمیل میں جھونک دینی پڑتی ہے ، بلکہ ہمارے دور میں تو انسان نے انھیں حاجات وضروریات کی تکمیل کو اپنی زندگی کا موضوع اور مقصد قرار دے لیا ہے۔ یہ وہ حاجت ہے جس کا عنوان ’’ نکاح ‘‘ ہے ، نکاح انسانی زندگی کی ایک بنیادی اور طبعی ضرورت ہے ، جس کی تکمیل بہر حال ضروری ہے ، بقائے نسل انسانی کا انحصار اسی پر ہے۔ شریعت نے اس ضرورت کی تکمیل کا نہ صرف یہ کہ انتظام کیا ہے بلکہ ایسا انتظام کیا ہے اس کو عبادت بنادیا ہے ، اگر آدمی نکاح کے امور میں ا س طریقہ کے مطابق مشغول ہو ، جسے شریعت نے متعین کیا ہے تو امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک اس کا یہ عمل نفل عبادات نماز اورروزے وغیرہ میں مشغول ہونے سے زیادہ افضل ہے، اور ایسا شخص شاید اس عابدوزاہد سے زیادہ اﷲ کی خوشنودی سے