یہ وہ مقصد زندگی ہے جو ہر لمحہ انسانیت کو ترقی دیتا رہتا ہے ۔ اس کی صرف عبادتیں ہی وجہ خوشنودی ٔ پروردگار نہیں رہتیں ، بلکہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ سراپا عبادت بن جاتا ہے ، اور جب یہی مقصد نگاہوں سے اوجھل ہوتا ہے تو اس کا ہرعمل بے روح ہوجاتا ہے ۔ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک وہ شخص جس نے اپنی عقیدت ومحبت کو اﷲ کی بارگاہ میں اُستوار کیا ہو ، وہ اس سے غافل ہوکر دوسری چیزوں میں الجھ جائے ۔ انسان اپنی ذات وصفات کے لحاظ سے فانی ہے ، لیکن جب اس کی نسبت ذات، حی وقیوم کے ساتھ درست ہوجاتی ہے تو بقاء ودَوام کی شان اس کے اندر بھی آجاتی ہے ، اسی نسبت کو قائم کرنے اور اُستوار رکھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی ، اپنے پیغمبر کو بھیجا ، کہ وہ کتاب کی تشریح وتبیین کرکے ایک صاف ستھری شریعت پر لوگوں کو چلنا سکھائیں ، یہی شریعت صراطِ مستقیم ہے اور اسی پر چل کر انسان نجاتِ ابدی کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کے لئے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ انسان محض اپنی عبادت کو سنوارے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی عادات وحاجات اور ضروریات وتقاضوں کو بھی اسی دائرے میں رکھے جوشریعت نے متعین کیاہے ۔ انسان اپنی زندگی کے ہررُخ سے معلوم ہو کہ خود مختار نہیں ہے بلکہ کسی کا غلام ہے ، کسی کی بندگی ہی اس کی زندگی اور اس کی روح ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْناً وَّإِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَاماً ( الفرقان) رحمن کے بندے وہ ہیں کہ زمین پر تواضع سے چلتے ہیں ، اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کی بات کہتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے ! رحمن کے خاص بندوں کی جو پہلی قابل تعریف صفت حق تعالیٰ نے ذکر کی ہے وہ از قبیل عادات ہی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاں عبادات میں آدمی اﷲ تعالیٰ کے ا حکام کا پابند ہے ، وہیں عادات وضروریات میں بھی اسے اسی طریقہ کی پابندی کرنی ہے، جو حق تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ ہم پر ظاہر کیا ہے۔
مسلمان تو اسے سوچ بھی نہیں سکتاکہ وہ کہیں بھی ، کسی مرحلہ میں بھی آزادانہ چال چل سکتا ہے ،ا سے تو ہر قدم پر اپنے مالک ومولیٰ کی مرضی دیکھنی ہے ،اور حقیقت میں یہی