تہمت لگائے ، کسی سے مارپیٹ کرے، کسی کو قتل کردے اور شراب کے نشہ میں یہ سب کچھ ہوتا ہے ، طلاق دینے سے زیادہ ہوتا ہے، تو اس فساد کاانسداد کیسے ہوگا؟ کیا یہاں بھی یہی کہاجائے گا کہ نشہ کی حالت میں وہ ہوش وخرد سے محروم تھا ، لہٰذا اس کے ان تصرفات کو نافذ قرار نہ دیاجائے ، حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ کا فساد طلاق سے نہیں ، شراب نوشی سے ہے ، طلاق کی نفی مت کیجئے ، شراب نوشی سے نہی کیجئے۔
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس طرح کی مجلسوں سے اخباروالوں کو بڑی دلچسپی ہوتی ہے ، وہ آدھی بات سنتے ہیں اور لے بھاگتے ہیں ، چنانچہ اچانک اخبار میں یہ بات آئی کہ’’ نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ، علماء کا فیصلہ ‘‘ فوراً ہر طرف اس کی گونج پھیل گئی ، حالانکہ صورتحال یہ نہیں تھی ، بہت سے علماء کو اس سے اختلاف تھا ، چنانچہ دوسرے دن اس اختلاف کی بھی خبر آئی، مگر اس کا چرچا مغلوب رہا، اور پہلی خبر خوب گرم رہی ، کیونکہ وہ لوگوں کے نفس اور تقاضے کے مطابق تھی ، اور حقیقت بھی کچھ اسی طرح ہے کہ سیمینار کے ذمہ داروں کارجحان عدم قوع طلاق ہی کا ہے ، اس لئے اس رجحان کو خوب آب وتاب حاصل رہی اور جس مسئلہ پر اب تک فتویٰ رہا ہے ، اور جس کے قائل چند حضرات کو چھوڑ کر باقی تمام حضرات صحابہ وائمہ وعلماء کرام رہے ، اسے کچھ دھندلا کردیا گیا۔
پھر ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ علماء کے درمیان مسائل میں علمی طور پر اختلاف تو ہوتا ہی رہتا ہے ، بحثیں چلتی ہیں ، لیکن عوام کے سامنے ایک صاف ستھرا ،منقح فتویٰ لایا جاتا ہے، عوام کو ان اختلافات سے دور رکھنا چاہئے ، ورنہ وہ دلائل تو سمجھیں گے نہیں ، جو مسئلہ نفس کے مطابق ہوگا ، اسے اختیار کرکے دوسرے کو غلط کہنا شروع کہہ دیں ، اس طرح کے علمی اختلافات کو عوامی بنانے کا انجام اباحیت اور خواہش پرستی کے سوا کچھ نہیں ، یہ معاشرہ کا بگاڑ کیا کچھ کم ہے؟ ابھی چند سال پہلے انشورنس کے مسئلے میں اسی طرح کی بے اعتدالی ہوچکی ہے۔
ان سیمیناروں کا حاصل اس کے علاوہ کیا ہے کہ کچھ علماء کو ایک خاص رجحان کے