دیاگیا ہے ، اور یہ کہ اس سے ذکر الٰہی اور نماز سے رکاوٹ ہوتی ہے ، اس سے باز رہنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ وہ پورے طور پر مکلف ہے، پھر اس میں طلاق کیوں واقع نہ ہوگی ۔ دوسرے یہ کہ عداوت وبغضاء کی بہت سی صورتوں میں نمایاں ترین صورت میاں بیوی کے درمیان تفریق ہے ، اگر اس حالت میں طلاق واقع نہ ہو تو شراب عداوت وبغضاء کا سبب کہاں ہوئی؟ اس خاص مسئلہ میں تو بے اثر ثابت ہوئی۔
خیر یہ تو ایک علمی بحث ہے ، مجھے عرض کرنا ہے کہ ایک ایسا مسئلہ جس میں عموماً تمام صحابہ کرام کا اتفاق ہے ، اکثر ائمہ متفق ہیں اور اسی فتویٰ دیاجاتا رہا ہے۔ سوالنامہ جب مرتب کیا گیا تو مفتی کا ذہن پوری قوت کے ساتھ بنایا گیا کہ وہ خواہی نخواہی عدم وقوع کا فیصلہ کرے، نشہ کی حالت میں طلاق کاایسا بھیانک منظر بنایاگیا ، جیسے اگر اس حالت کی طلاق کو نافذ مان لیاجائے تو مردتو کم عورتیں اور اس کے معصوم بچے سخت مصیبتوں کا شکار ہوں گے، پس مسلم معاشرے کو مصائب سے بچانے کے لئے مان لینا چاہئے کہ نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق نہیں پڑتی۔
سمجھ میں نہین آتا کہ اگر یہ فتویٰ دے بھی دیا جائے، تو عورت اور اس کے معصوم بچے مصائب سے کیوں کر بچ جائیں گے ؟ کیا اس فیصلے سے شراب نوشی کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟ کہ صاحب پیتے رہو، بکتے رہو، نشہ کی حالت میں عورت کے ہاتھ سے نکل جانے کا ندیشہ تھا ، اب وہ بھی نہیں رہا۔ شوہر طلاق طلاق کہتا رہے، اور نشہ کا عذر کرکے بیوی کو نشۂ شراب کا نشانہ بناتا رہے ، کیا شراب نوشی کے عادی شخص کے ساتھ بندھے رہنا عورت کے لئے بڑی مصیبت نہیں ہے، ہم تو دیکھتے ہیں کہ شراب کا عادی نشہ کی حالت میں اپنی بیوی اور اپنے بچوں کے لئے مستقل مصیبت ہوتا ہے، اس کی شکایت تو اتنی عام ہے ، نشہ کی حالت کی طلاق اس کے مقابلہ میں کالعدم ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شراب کی عادت چھڑانے کی تدبیر کی جاتی، لیکن ہوا یہ کہ اس کی جڑاورراسخ ہوگئی ، پھر غور کرنے کی بات ہے کہ نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو تو آپ نے نہیں مانا، تو اگر وہ اس حالت میں کسی کو گالی دے، کسی کو