تحت کچھ مطالعہ کی توفیق ہوجاتی ہے ، عمومی کوئی فائدہ تو سمجھ میں نہیں آتا۔ ان سیمیناروں نے جو فیصلے صادر کئے ہیں ، وہ وہی ہیں جن پر پہلے سے علماء فتویٰ دیتے چلے آئے ہیں ، اورجو مسائل مختلف فیہ رہے ہیں ، ان میں بس عوام کے سامنے اختلاف آجاتا ہے کہ فلاں فلاں لوگ اس جانب کے قائل ہیں ،اور فلاں فلاں لوگ دوسری جانب کے ؟ سوال یہ ہے کہ اس اختلاف کو سامنے لانے کا کیا حاصل؟ کوئی فیصلہ تو سیمینار کرنہیں پاتا، ہاں اختلاف کو سامنے لاکر عوام کو اباحیت کاراستہ دکھادیتا ہے، کہ جو پہلو آسان اور نفس کے مطابق ہو، اسے اختیار کرلیں ، خواہ وہ دلائل کے لحاظ سے مرجوح ہو، خواہ اس کے قائلین اس درجہ کے نہ ہوں جس درجے کے دوسرے لوگ ہیں ۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ عام مسلمانوں پر سے دین کی گرفت ڈھیلی ہورہی ہے، بلکہ یہ بھی خیال پیدا ہورہا ہے کہ لوگ دین کو خوامخواہ مشکل بنارہے ہیں ، ورنہ اس میں نفس کی خواہشات کی بھی بہت گنجائش ہے ، اور یہ کہ علماء نے دین کو مشکل کردیا ہے، ورنہ وہ تو ہمارے نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے کااہتمام کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اس کا نجام یہ ہے کہ علماء متقدمین پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے ، دین کی عظمت گرتی جارہی ہے، کاش اس پر بھی غورکیاجاتا مسلمانوں کو مصائب ومشکلات کے نرغے سے بچانے اور معاشرے میں آسانیاں پیدا کرنے کے نتیجہ میں اگر دین اسلام ہی خواہشات نفس اور مسخ وترمیم کے نرغے میں گھر جائے تو فرضِ اولین ہے کہ دین کی حفاظت کی جائے ، اور معاشرہ کی اصلاح اس کے مطابق کی جائے، نہ کہ دین کی اصلاح معاشرے کے مطابق ، کتنی افسوسناک بات ہے کہ ؎
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
اور جو شخص بھی دلائل سے بے اعتنائی کرکے رفتارِ زمانہ کے تقاضوں کی رعایت کااہتمام کرے گا، وہ ضرور قرآن کے بدلنے کے جرم میں ملوث ہوگا۔ أعاذنااﷲ منھا
( شوال تا ذی الحجہ ۱۴۲۰ھ؍ فروری تامارچ ۲۰۰۰ء)
٭٭٭٭٭