کھچڑی جیسا مجمع کس حد تک صحیح نتیجے تک پہونچتا ہے ، یہ قطعاً مشکوک ہے، اور اس پر طرہ یہ کہ سوالنامہ اس طرح مرتب کیا جاتا ہے کہ اس میں مفروضہ مصائب ومشکلات کواہتمام سے ذکر کرکے جواب دینے والوں کے لئے ایک راہ متعین کردی جاتی ہے، اس کے بعد اگر دلائل اس کے خلاف بھی ہوں ، بہت سی مصلحتیں اس کے منافی بھی ہوں تب بھی جواب دینے والا ادھر متوجہ نہیں ہوتا، یااس کی الٹی سیدھی تاویلیں کرتا ہے۔
۱۱؍ تا ۱۴؍ فروری ۲۰۰۰ء بارہواں فقہی سیمینار منعقد ہوا، اس میں ایک سوال حالت نشہ میں طلاق کے متعلق تھا ، عام طور پر صحابہ کرام اور ائمہ عظام علیہم الرضوان والرحمۃ اس بات کے قائل ہیں کہ شراب یا کسی بھی حرام نشہ آور چیز کو اگر کسی نے اپنی خواہش ومرضی سے استعمال کیا ، اور اس سے نشہ پیدا ہوا تو اس حالت کی دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، صحابہ میں حضرت عثمان ص سے منقول ہے کہ نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق نہیں پڑتی۔ چاروں ائمہ میں سے ہر ایک اس کا قائل ہے کہ پڑجاتی ہے، امام شافعیؒ اور امام احمد سے ایک ایک قول اس کے خلاف کا بھی ہے، لیکن امام شافعی کا قول راجح طلاق پڑجانے کا ہے۔ چند دوسرے ائمہ جن کی فقہ مدوّن نہیں ہے، مثلاً امام لیث بن سعد اوراسحاق بن راہویہ سے منقول ہے کہ نشہ والی طلاق نہیں پڑتی ، مگر ان کے علاوہ تما م صحابہ وائمہ طلاق پڑجانے ہی کے قائل ہیں ، عموماً اسی پر فتویٰ دیاجاتا ہے ،ا ور قرآن کریم کی آیت جو تحریم شراب سے متعلق ہے، اس کے ساتھ بھی مناسبت اسی کوہے کہ طلاق پڑجاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے شراب کی حرمت شدیدہ کو بیان کرنے کے بعد اس کی حکمت بھی قرآن کریم میں ارشادفرمائی ہے : إِنَّمَا یُرِیْدُ الْشَّیْطٰنُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ وَعَنِ الْصَّلوٰۃِ فَھَلْ أَنْتُمْ مُنْتَھُوْنَ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوئے کی وجہ سے عداوت اور کینہ ڈال دے، اوراﷲ کی یادسے اور نماز سے روک دے، تو کیا اس سے تم باز آتے ہو۔ اس آیت سے معلوم ہواکہ شراب پی کر بھی آدمی مکلف ہوتا ہے ، اس کے تصرفات واعمال کوعداوت وبغض کا سبب قرار