قومیں اور افراد جب اقبال مند ہوتے ہیں ، تووہ اپنا احتساب خود کرتے ہیں ، وہ اپنے خیالات اور اعمال کو مستند سمجھ کر مطمئن نہیں ہوجاتے، بلکہ ہروقت جائزہ لیتے رہتے ہیں ، اور جو کچھ اس میں شریعت اور عقل کی میزان پر پور ااترتا ہے ، اسے باقی رکھتے ہیں ، اور باقی کو حذف کرکے توبہ واستغفار کرتے ہیں ، اور اگر از خود اپنی کوئی خرابی سمجھ میں نہیں آتی ، اوردوسرا کوئی اس پر متنبہ کردیتا ہے ، تو اسے شکرگزاری کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور احسان مند ہوتے ہیں ۔
دار العلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث اور صدر مدرس حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی قدس سرہٗ جنھیں ان کے علوم کی وسعت وگہرائی کی وجہ سے شاہ عبد العزیز ثانی کہاجاتاتھا ، ان کے تلمیذ ارشد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ نے بار بار بیان کیا ہے ، جب کوئی انھیں ان کی کسی غلطی پر تنبیہ کردیتاتھا ، تو نہایت شکرگزاری سے بار بار اس کاا عتراف کرتے تھے ، اور غالباً اسی کا اثر تھا کہ حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے …جو کہ نہایت کثیر التصانیف بزرگ ہیں … اپنے یہاں ایک مستقل سلسلہ ’’ترجیح الراجح‘‘ کا قائم کررکھا تھا ، اور کہیں سے کوئی بھی کسی چیز پر گرفت کرتا تھا، تو اسے بغور ملاحظہ فرماتے اور اس کی رائے کو درست پاتے تو بے تکلف اس کا اعتراف کرکے اپنے سابق قول سے رجوع فرمالیتے۔ حضرت مولانا سیّد سلیمان ندوی علیہ الرحمہ نے بھی رجوع واعتراف کے نام سے ایک مضمون تحریر فرمایا تھا جس میں اپنی متعدد رایوں سے برملا رجوع کیا ، اہل حق کا ہمیشہ یہی شعار رہا ہے ، غلطی کے اعتراف سے آدمی کو بلندی ملتی ہے۔
اور قومیں جب زوال سے دوچار ہوتی ہیں ، تو انھیں اپنی غلطی ہی ہنر معلوم ہوتی ہونے لگتی ہے ، انھیں بسااوقات خیال ہی نہیں رہتا کہ ہم سے بھی کوئی غلطی ہوسکتی ہے، جب یہ کیفیت ہوتی ہے تو قومیں ٹھٹھرتی چلی جاتی ہیں ، ترقی کی راہیں یکسر مسدود ہوجاتی ہیں ، اور اس کا نقطۂ عروج یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کی روک ٹوک اور تنبیہ کو توہین وتذلیل سمجھاجانے لگتا ہے۔
حق تعالیٰ کا ارشادہے:وَإِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اﷲَ أَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ