نے پوری کتاب محنت کرکے پڑھی ہے، متعدد بار پڑھی ، اس نے کوشش کی کہ تبصرہ مصنف کی منشاء کے مطابق ہو، جس کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے ، اور اس کی تلخیص کی گئی ہے، وہ دوسری جگہ سے حاصل کی، مگر اب اس کو کیا کہئے کہ تبصرہ نگار اس کوشش میں کامیاب نہ ہواکہ اسے مصنف کی خواہش پر ڈھال سکے، پس جیسا اس نے پایا بغیر کسی مداہنت کے اسے پیش کردیا، اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہا کہ مصنف اپنے اغلاط پر متنبہ ہوکر خوش ہوں گے، اور کھلے دل سے اس کا اعتراف کریں گے ، یا اگر مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو سمجھائیں گے ، لیکن افسوس ایسا نہ ہوا، اس تبصرہ سے مصنف کو رنج ہوا، اس رنج نے غصہ کی شکل اختیار کی ، پھر وہ غصہ کاغذ کے صفحات پر بکھر گیا ، ان کا خط آیا، جس میں غصے کے شرارے بہت تیز ہیں ، تبصرہ نگار کو اس خط سے کوئی تکلیف اور رنج نہیں ہے، مصنف مجھ سے ہر اعتبار سے بڑے ہیں ، انھیں حق ہے کہ وہ اپنے چھوٹے پر خفا ہوں ، اسے جھڑکیاں سنائیں اور پلائیں ، تاہم جی چاہتا ہے کہ ان سے عرض کروں کہ :
’’ محترم !یہ آپ کی شانِ بلند کے منافی ہے کہ کسی نے آپ کو لقمہ دے دیا، تو آپ اسے برداشت نہ کریں ، آخر حافظ سے غلطی ہوتی ہے ، پیچھے سے اس کا شاگرد بھی اسے لقمہ دیتا ہے ، تووہ بشاشت سے قبول کرتا ہے ، اسے اپنی توہین نہیں سمجھتا، یہاں بھی ایک چھوٹے نے تصحیح کرنی چاہی ہے ، تو آپ ناراض کیوں ہوتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ آپ کو خوش رکھیں ، یہ تو اس لئے ہواکہ آپ نے ترجمہ وتلخیص کی ناہمواریوں پر توجہ نہین فرمائی تھی، اب انشاء اﷲ آپ خود بھی اس راہ پر ہوشیار ہوکر چلیں گے، اور دوسرے بھی ،جو اس میدان میں بے سوچے سمجھے کود پڑتے ہیں ، انھیں سوچنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔‘‘
بہر حال تبصرہ نگار تو یہی کرے گا، جو اس نے کیا ہے ، لیکن اب جو غصہ کے طوفان کی زد میں وہ آیا ہے تو اس سے یہ رائے مزید پختہ ہوگئی ہے کہ یہ باب ہی بند رہے تو مناسب ہے ۔