صاحب کے یہاں قیام تھا ، عصر کی نماز سے پہلے مسجد کے قریب لاؤڈ اسپیکر سے شور وغل سنائی دیا ، معلوم ہوا کہ کرکٹ کا میچ ہورہا ہے ، باہر نکلاتو ایک ٹھٹ کا ٹھٹ اِدھر اُدھر بیٹھا تماشا میں مصروف تھا ، اذان ہونے لگی میں نے سمجھا کہ اسلام کے یہ نام لیوا کچھ دیر کے لئے کھیل روک دیں گے ، لاؤڈ اسپیکر کا شور بند ہوجائے گا۔ مگر ؎
غلط بودآنچہ ما پنداشتیم
کھیل بدستور جاری رہا ، تماشا دیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی رہی ، لاؤڈ اسپیکر کا ہنگامہ برقرار رہا ۔ اسی شور وہنگامہ میں نماز ہوئی ، ذہن ودماغ مختل ہوگیا ، بہت صدمہ ہوا ۔ سخت افسوس ہوا کہ اب ہم لوگ اتنے گر گئے ہیں اتنے جری ہوگئے ہیں ، اور ستم بالائے ستم یہ کہ کھیل کے اس ہنگامے میں بعض دیندار شکل وصورت کے لوگ بھی نماز اور اذان سے بے نیاز محو تماشاتھے ۔ إناﷲ وانا إلیہ راجعون
کتنے افسوس کی بات ہے پہلے اگر مسجد کے پاس غیر مسلم باجا بجاتے ہوئے گزرتا ، تو مسلمان آمادۂ فساد ہوجاتے کہ اس نے مسجد کا احترام نہیں کیا۔ اور اب حال یہ ہے کہ مسلمان ہی مسجد کی ہر بے حرمتی کاکام کرڈالتا ہے اور اس کو احساس نہیں ہوتا اور اس پر یہ فریاد ہوتی ہے کہ مسلمان مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ آخر ہم غور کریں کہ ہم کس چیز میں اپنے آپ کو گھیررہے ہیں ۔
(محرم تا ربیع الاول۱۴۲۰ھ؍مئی تاجولائی۱۹۹۹ئی؍ ماہنامہ ضیاء الاسلام اپریل ۲۰۰۴ء )
٭٭٭٭٭