سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں ، جس سے وہ چلتا ہے،اگر وہ مجھ سے کوئی سوال کرے تو میں اسے ضرور بالضرور دوں گا، اور اگر کسی چیز سے میری پناہ مانگے تو میں اسے ضرور پناہ دوں گا۔
خیال کیجئے ! فرائض ونوافل کی پابندی کرنے والا کہاں تک پہونچتا ہے، وہ اﷲ کی محبوبیت کے کس مقام پر فائز ہوتا ہے، کہ سننا، دیکھنا، پکڑنا، چلنا بظاہر اس کے کان، آنکھ ، ہاتھ اور پاؤں سے ہورہا ہے مگر اﷲ تعالیٰ اُن سب کی نسبت اپنی طرف فرمارہے ہیں ، ظاہر ہے کہ جہاں شرف ومحبوبیت کی یہ کیفیت ہو، وہاں اگر اس سے کوئی دشمنی کرے گا، تو وہ دشمنی اس بندے سے کاہے کو ہوگی ، اﷲ ہی سے ہوگی ، اور اﷲ کا دشمن جسے اﷲ تعالیٰ جنگ کی دھمکی دے رہے ہوں ، بچ کر کہاں جاسکتا ہے۔
لیکن ابھی معاملہ اسی پر ختم نہیں ہے، اس محبوبیت ومقبولیت کی مزید معراج دیکھئے ، فرماتے ہیں : وماترددت عن شیٔ أنا فاعلہ ترددی عن نفس المومن یکرہ الموت وأنا أکرہ مساء تہ، اور جن کاموں کو مجھے کرنا ہوتا ہے، ان میں سے کسی میں مجھے وہ تردد نہیں ہوتا، جو مومن کی موت کے سلسلے میں ہوتا ہے، مومن موت کو ناگوار سمجھتا ہواور مجھے اس کی ناگواری، گوارا نہیں ہوتی۔
خیال فرمائیے! ایک بندۂ مومن جو ولایت کے مذکورہ احوال سے متصف ہو ، اس کی پسند وناپسند کا اﷲ کو کس درجہ لحاظ ہے۔
یہاں حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ شیخ ابوالفضل بن عطاء کے حوالے سے ایک ضروری تنبیہ تحریر فرماتے ہیں ، اﷲ نے جو فرائض مقرر فرمائے ہیں ، ان میں وہ فرائض ظاہرہ بھی ہیں ، جن کا کرنا فرض ہے جیسے نماز اور زکوٰۃوغیرہ، اور وہ بھی داخل ہیں جن کا ترک فرض ہے، جیسے زنا اور قتل وغیرہ، اسی طرح وہ فرائض بھی اس میں داخل ہیں جن کا تعلق باطن اور قلب سے ہے ، فعلاً بھی اور ترکاً بھی، مثلاً اﷲ کی معرفت، اس کی محبت، اس پر توکل ، اس کا خوف وغیرہ
بہر حال جن کے یہ احوال واوصاف ہوں ، ان سے دشمنی کرنا خطرناک ہے ،