ناصاف نہیں چھوڑا ہے ، ہر ایک کے حدود وعلامات مقرر فرمادیئے ہیں ، آدمی ذراتامل کرے تو بات بالکل واضح نظر آتی ہے ۔
صاحب فتح الباری علامہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی شرح کے ذیل میں ولی کی تعریف یہ ہے کی ہے: المراد بولی اﷲ العالم باﷲ المواظب علی طاعتہ المخلص فی عبادتہ۔اﷲ کاولی وہ ہے ، جو اﷲ کی معرفت رکھتا ہو ہمیشہ اﷲ کی اطاعت کرتا ہو، اور اس کی عبادت میں مخلص ہو ۔ یہ اﷲ کے ولی کی تعریف بھی ہے ، اور اس کے علامات کا بیان بھی ہے ، جسے اﷲ کی معرفت حاصل ہوگی ، وہ ہر حال میں اﷲ سے راضی ہوگا ، اور ہر حال میں اﷲ کو یاد رکھے گا، اسے دیکھ کر ، اس کی صحبت میں بیٹھ کر اﷲ یاد آئے گا ، اﷲ کی اطاعت کا ظاہراً بھی پابند ہوگا اورباطناً بھی ، اور یہی اس کا حال اور مزاج ہوگا، اس کا دلی جذبہ اوررُجحان اﷲ کی اطاعت ہی کاہوگااور پھر اس کی عبادت کامنشاء کوئی غرضِ دنیاوی یالذتِ نفسانی نہ ہوگا ، بلکہ محض اﷲ کے لئے وہ عبادت کرتا ہوگا، جس کے یہ احوال ہوں ، ظن غالب یہ ہے کہ وہ اﷲ کا ولی ہوگا ، اس کی عداوت ضرور مہلک ہوگی ۔ یہ تعریف تو حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے قرآن وحدیث ہی کی روشنی میں ذکر کی ہے ، لیکن آئیے ، حدیث کے باقی الفاظ کا بھی مطالعہ کرلیں ، کہ زبان رسالتمآب ا کے واسطے سے خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے ولی کی کیا شان بتائی ہے ۔ فرماتے ہیں :وماتقرب إلی عبدی بشیٔ أحب إلی مما افترضتہ علیہ ومازال عبدی یتقرب إلی بالنوافل حتیٰ أحببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصر بہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا وإن سألنی لأعطیتہ ولئن استعاذنی لأعیذنہ۔ اور بندہ جن چیزوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے، ان میں میرے نزدیک محبوب ترین اعمال وہ فرائض ہیں جنھیں میں نے اس پر فرض کیا ہے۔ اور بندہ نوافل کے واسطے سے برابر درجاتِ قرب میں ترقی کرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ ( ایک وقت وہ آتا ہے کہ ) میں اس کا کان بن جاتا ہوں ، جس سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں ، جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ، جس