واحد ذریعہ یہ ہے کہ رسول اﷲ اکی قدم بہ قدم پیروی کی جائے ، اگر کسی نے ان کا راستہ ذرا بھی چھوڑا، تو وہ جہاں بھی پہونچے ، مگر اﷲ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کو نہیں پہونچ سکتا، معیار وہی ہیں ، انھیں کی پیروی کرنے سے مرتبہ ملا ، جس کو ملا۔ یہ بزرگانِ دین اور مشائخ کبار جن کی ولایت کی دنیا معترف ہے، انھیں یہ ولایت حضور اکرم ا کے نقش قدم پر چل کر ہی ملی ہے ، ان کا اصل کمال اتباع واطاعت ہی میں مضمر ہے۔
لیکن اب دیکھئے کہ رسول اﷲ اور اولیاء کرام ہی کا نام لے لے کر امت کن خرافات میں مبتلا ہوگئی ہے، دین کی اصل حقیقت رسوم ومظاہر میں گم ہوگئی ہے، فرائض سے کوئی واسطہ نہیں ۔
سنتوں کا نور زندگیوں سے غائب ہے، حرام وحلال کی تمیز باقی نہیں رہی ، مگر بزرگوں کا نام بیچ میں لاکر لوگوں نے توحید کی جگہ شرک کو ، سنت کی جگہ بدعت کو جاری کررکھا ہے ، عید میلاد النبی ہو ، یا گیارہویں شریف، شب معراج ہو یا یوم عاشورا، خواجہ اجمیری کی زیارت ہویا کچھوچھہ کا مزار، اور اس کے علاوہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے مزارات، ہر موقع اور ہرجگہ پر دیکھ لیجئے کہ انھیں بزرگوں کا نام لے لے کر اور انھیں کی عقیدت ومحبت کا نعرہ لگالگا کر کن کن خرافات کے مرتکب اسی اسلام کے نام لیوا ہوتے ہیں ، جس کو جناب نبی کریم ا لائے تھے ،جس اسلام نے شرک کو اور شرک کے آثار کو یکسر ختم کردیا تھا ، اب اسی اسلام کا دم بھرنے والے گلے گلے تک شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں ، لیکن پھر بھی مسلمان ہیں ۔
پھر اتنے ہی پر بس نہیں ، اسلام جو ایک نہایت سنجیدہ دین تھا ، اس کے ماننے والے اسی کے نام پر خرافات کو ایجاد کرکے سڑک پر لے آئے ، بازار میں لے آئے ، ڈھول اور طبل کے ساتھ لے آئے ، دنیا سمجھتی ہے کہ یہی اسلام ہے ، حالانکہ اسے اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ، لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسے ہی مسلمان ہوتے ہیں ، اور مسلمان یہی سب کرتے ہیں ، حالانکہ یہ اعمال مسلمانوں کے نہیں ہیں ۔
یہ شور یہ ہنگامے شرعی اعتبار سے تو غلط در غلط ہیں ہی، خاص ہندوستان کے ماحول